اسلام آباد (پی این آئی) صدر آزاد جموں وکشمیر بیرسٹر سلطان محمود چوہدری نے کہا ہے کہ ہمارے لیے یہ بات باعث اطمینان ہے کہ چین نے واضح طور پر کہا ہے کہ وہ سرینگر میں ہونے والی G-20کانفرنس میں شرکت نہیں کرے گا کیونکہ مقبوضہ کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے لہذا ہمیں اس میں شرکت نہیں کرنی چاہیے۔ اسی طرح ترکی، انڈونیشیاء اور دیگر ممالک بھی اس کانفرنس میں شریک نہ ہونے کا سوچ رہے ہیں کیونکہ بھارت سرینگر میں G-20کانفرنس کے انعقاد سے اپنے مذموم عزائم کی تکمیل چاہتا ہے اور یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں حالات معمول کے مطابق ہیں جبکہ اصل حقائق اس کے منافی ہیں۔
اقوام متحدہ کے ہیومن رائٹس کمیشن نے 2018-19میں مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے مظالم پر مفصل رپورٹ جاری کی تھی اُس میں کہاگیا تھا کہ اقوام متحدہ وہاں پر ہونے والی انسانی حقوق کی پامالی پر ایک تحقیقاتی کمیشن تشکیل دے جو کہ وہاں پر ہونے والے مظالم کی تحقیقات کر کے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو رپورٹ پیش کرے۔ 05اگست2019ء کے بعد سے بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں شروع کر دی ہیں اور آئے روز انسانی حقوق کی پامالی میں بے انتہاء اضافہ کر دیا ہے جس سے مقبوضہ کشمیر کے عوام کو ایک سنگین صورتحال کا سامنا ہے اور وہ انٹرنیشنل کمیونٹی کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ وہ بھارت کو اُس کے مکروہ عزائم سے باز رکھے۔میں نے اس سلسلے میں اسلام آباد میں تعینات G-20ممالک کے سفیروں کو ایک خط بھی لکھا ہے جس میں، میں نے جہاں اُن سے اس G-20کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کی اپیل کی ہے وہاں پر بھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیرمیں جاری انسانی حقوق کی پامالی رکوانے کے لئے اپنا کردار ادا کرنے کی بھی درخواست کی ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے آج یہاں ایوان صدر کشمیر ہاؤس اسلام آباد میں امریکہ کے معروف نشریاتی ادارے وائس آف امریکہ کو ایک خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کیا۔
صدر ریاست آزاد جموں وکشمیر بیرسٹر سلطان محمود چوہدری نے مزید کہا کہ سرینگر میں G-20کانفرنس کے انعقاد سے بھارت دنیا کو یہ باور کرانا چاہتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال نارمل ہے جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے اور بھارت نے وہاں پر ظلم و بربریت میں اضافہ کر دیا ہے اور کشمیریوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا ہے جس سے کہ وہ ایک اذیت ناک صورتحال سے گزر رہے ہیں ایسے میں عالمی برادری بھارت کو مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کو روکنے کے لئے اُس پر دباؤ ڈالے اور میں G-20ممالک سے یہ درخواست کروں گا کہ وہ سرینگر میں G-20کانفرنس کا بائیکاٹ کریں۔ میں نے اس سلسلے میں اسلام آباد میں تعینات G-20ممالک کے سفیروں کو ایک مکتوب بھی لکھا ہے جس میں، میں نے ان ممالک سے سرینگر میں ہونے والی G-20کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کی اپیل کی ہے وہاں پر بھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیرمیں بڑے پیمانے پر جاری ظلم و بربریت کو رکوانے کے لئے اپنارول ادا کرنے کی بھی درخواست کی ہے۔ بھارت ایک طویل عرصے سے مقبوضہ کشمیر پر غیر قانونی طور پر قابض ہے اور بھارت یہ جان لے کہ وہ اپنے توپ و تفنگ سے کشمیری عوام کے جذبہ حریت کو نہیں دبا سکتا۔کشمیری عوام کی جدوجہدآزادی جاری و ساری رہے گی اور انشاء اللہ مقبوضہ کشمیر ایک دن بھارتی تسلط سے آزاد ہو کر رہے گا۔ صدر آزاد جموں وکشمیر بیرسٹر سلطان محمود چوہدری نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ G-20ممالک کو بھارت کی مقبوضہ کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی پامالیوں کا نوٹس لینا چاہیے اور سرینگر میں ہونے والی G-20کانفرنس کا بائیکاٹ کرنا چاہیے۔ صدر آزاد جموں وکشمیر بیرسٹر سلطان محمود چوہدری نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہمارے لیے یہ بات باعث تقویت ہے کہ چین نے دو ٹوک الفاظ میں سرینگر میں ہونے والی G-20کانفرنس کا بائیکاٹ کیا ہے کیونکہ چین یہ سمجھتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے لہذاچین کو اس میں شرکت نہیں کرنی چاہیے۔
اسی طرح ترکی، انڈونیشیاء اور دیگر ممالک بھی اس کانفرنس میں شریک نہ ہونے کا سوچ رہے ہیں کیونکہ بھارت سرینگر میں G-20کانفرنس کو منعقد کروا کر اپنے مکروہ عزائم کی تکمیل چاہتا ہے اوردنیا کو یہ باور کرانا چاہتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں صورتحال نارمل ہے جبکہ اصل حقیقت اس کے مغائر ہے۔اقوام متحدہ کے ہیومن رائٹس کمیشن نے 2018-19میں مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے ظلم و بربریت پرجامع تحقیقاتی رپورٹ جاری کی تھی اور اُس میں کہا تھا کہ اقوام متحدہ مقبوضہ کشمیرمیں ہونے والی انسانی حقوق کی پامالی پر ایک تحقیقاتی کمیشن تشکیل دے جو کہ وہاں پر ہونے والے مظالم کی تحقیقات کر کے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو رپورٹ پیش کرے۔ لہذا میں سرینگر میں ہونے والی G-20 کانفرنس کے شریک ممالک سے کہوں گا کہ وہ اس کانفرنس کا بائیکاٹ کر یں اور بھارت پر زور دیں کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی بند کرے۔ ۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں