“نقصان جنگ کا حصہ ہوتا ہے” بھارت نے رافیل کی تباہی کا اعتراف کر لیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کراچی (نیوز ڈیسک) بھارتی ائیر مارشل اے کے بھارتی نے پاکستان کے ہاتھوں رافیل طیارے مار گرائے جانے کا اعتراف کرلیا ہے۔
انڈین ایئرمارشل اودیش کمار بھارتی سے انڈین صحافی نے سوال کیا کہ ’کیا ہم اس حوالے سے اعداد و شمار دے سکتے ہیں کہ ہم نے کتنے اثاثے کھوئے ہیں؟‘ صحافی نے کہا کہ انٹرنیشنل میڈیا پر لکھا جا رہا ہے کہ رافیل طیارے گرائے گئے ہیں۔ کیا آپ اس کی وضاحت کر سکتے ہیں؟انہوں نے کہا کہ ہم حالت میں جنگ میں ہیں، جنگ میں نقصانات ہوتے ہیں ، اس وقت میں اس بارے میں تبصرہ نہیں کروں گا کیونکہ ہم لڑائی کی حالت میں ہیں۔ اگر میں نے تبصرہ کیا تو اس سے دشمن کا فائدہ ہوگا۔‘
ایئرمارشل نے کہا کہ ’ہم انہیں اس وقت کوئی فائدہ نہیں دینا چاہتے۔ میں صرف یہی کہوں گا کہ ہم نے اپنے اہداف حاصل کر لئے ہیں۔ ہمارے تمام پائلٹ گھر واپس پہنچ گئے ہیں۔‘انہوں نے کہا کہ نتائج پورے دنیا دیکھ سکتی ہے۔دوسری جانب دونوں ممالک کے ڈی جی ایم اوز کا رابطہ آج پھر ہوگا، سکیورٹی ذرائع کے مطابق ان مذاکرات میں مستقل جنگ بندی قائم کرنے کیلئے بات چیت کی جائے گی۔ بھارتی ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز لیفٹیننٹ جنرل راجیو گھائی نے الزام عائد کیا کہ ’لائن آف کنٹرول پر سیز فائر کی خلاف ورزی سے سیز فائر کا (2021 کا) سمجھوتہ بھی ختم ہوچکا ہے۔‘ انہوں نے کہا کہ ’لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کے دوران گھسنے کی کوشش ہو رہی ہے۔‘انہوں نے کہا کہ ’آپ نے دیکھا کہ جو تین، چار دن سے کارروائیاں چل رہی ہیں یہ جنگ سے کم نہیں تھیں۔
عام حالات میں ایک دوسرے ملک کی فضائیہ ہوا میں نہیں اڑتی اور ایک دوسرے پر اسٹرائیکس نہیں کرتیں۔ ہر رات دراندازی نہیں ہوتی۔قبل ازیں پاکستان کی جانب سے بھارت کے رافیل طیارےمار گرائے جانے اور دیگر نقصانات سے متعلق صحافی کے سوالات کے جواب میں انڈین ایئرمارشل اے کے بھارتی نے کہا کہ ’مجھے خوشی ہے کہ آپ نے یہ سوال کیا ہے، ہم لڑائی کی حالت میں ہیں۔ نقصانات لڑائی کا حصہ ہیں۔ آپ کو ہم سے یہ سوال پوچھنا چاہیے کہ کیا ہم نے اپنے اہداف حاصل کیے ہیں؟ کیا ہم نے دہشتگردوں کے ٹھکانے تباہ کرنے کا ہدف حاصل کیا ہے؟‘ اس کا جواب ہاں ہے۔‘کیا انڈیا نے پاکستانی فضائیہ کے طیارے گرائے ہیں، اس سوال پر بریفنگ کے دوران ایئر مارشل اے کے بھارتی نے کہا کہ ’ان کے طیاروں کو ہماری حدود میں آنے سے روکا گیا۔ ہمارے پاس ان کا ملبہ نہیں۔‘
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں