قومی اسمبلی کا پہلا پارلیمانی سال مکمل ، پلڈاٹ کی رپورٹ میں اہم انکشاف

 

144 دن پر مشتمل 16ویں قومی اسمبلی کا پہلا پارلیمانی سال مکمل ہوگیا، قومی اسمبلی کے13سیشنز کے دوران مجموعی طور پر 93 نشستیں منعقد ہوئیں، ایوان کی کاروائی247 گھنٹے 23 منٹ تک چلتی رہی، 26ویں آئین ترمیم سمیت 47 قوانین، 26 قرادادیں منظور کی گئیں۔

پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) نے 16ویں قومی اسمبلی کے پہلے سال کی کارکردگی کی سالانہ جائزہ رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ موجودہ اسمبلی کے کام کا دورانیہ، اوقات اور ایام کے حوالے سے گزشتہ اسمبلی کے مقابلے میں کم رہا تاہم اس دوران اہم قانون سازی کی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا جن میں سے زیادہ تر قوانین کو بغیرجانچ پڑتال اورغور و خوض کے منظورکیا گیا۔

پلڈاٹ کے مطابق موجودہ اسمبلی کا 29 فروری 2024 کو افتتاحی اجلاس منعقد ہوا اور پہلے پارلیمانی سال کی مدت 28 فروری 2025 کو ختم ہو رہی ہے۔16ویں قومی اسمبلی کے 93 اجلاس منعقد ہوئے اور موجودہ اسمبلی نے 212 گھنٹے کام کیا جبکہ اس کے مقابلے میں 15ویں قومی اسمبلی کے پہلے پارلیمانی سال کے دوران 96 اجلاس منعقد اور گذشتہ اسمبلی نے 297 گھنٹے کام کیا جو کہ ایک ریکارڈ ہے جبکہ موجودہ اسمبلی کی کارکردگی گذشتہ اسمبلی کے مقابلے میں واضح حد تک کم ہے۔

ٓواضح رہے کہ سولہویں قومی اسمبلی کے پہلے سال میں ایک گھنٹے کام کرنے کی لاگت تقریباً 60.08 ملین روپے فی گھنٹہ آتی ہے جبکہ اس کے پہلے سال میں 16ویں قومی اسمبلی کے اجلاس پر اوسطا“ 136.96 ملین روپے لاگت آئی۔تاہم 16 ویں قومی اسمبلی کی کارکردگی قانون سازی کے حوالے سے نمایاں طور پر گزشتہ اسمبلی سے بہتر رہی۔

اس کے پہلے سال میں 47 بل منظور کیے گئے جبکہ 15 ویں قومی اسمبلی کے پہلے سال کے دوران منظور کیے گئے بلوں کی تعداد صرف 10 ہے جو کہ گزشتہ اسمبلی کے مقابلے میں 370 فیصد زیادہ ہے۔ اس تیز تر قانون سازی کی سرگرمیوں میں اہم قوانین اور 26ویں آئینی ترمیم شامل ہے جن میں سے زیادہ تر کو اسمبلی کی طرف سے مناسب وقت اور جانچ پڑتال کے بغیر فوری طور پر منظور کیا گیا۔ جبکہ متعدد قوانین بشمول 9 انتہائی اہم قوانین کو ممبران اسمبلی کی جانب سے نظرثانی کی پرواہ کیے بغیر اور متعلقہ قائمہ کمیٹیوں کو بھیجے بغیر منظوری کے لیے جلد بازی کی گئی۔

پلڈاٹ کے مطابق ممبران اسمبلی کی حاضری بھی 16ویں قومی اسمبلی کے پہلے سال میں اوسطاً 66 فیصد تک کم ہو گئی ہے جو 15ویں قومی اسمبلی کے پہلے سال میں 73 فیصد تھی۔ واضح رہے کہ 16ویں قومی اسمبلی کے پہلے سال کے دوران ٹیکس دہندگان کے لیے فی ممبر قومی اسمبلی پر 37.9 ملین روپے لاگت آئی۔

پلڈاٹ اس بات کی تگ و دو کر رہا ہے کہ ممبران اسمبلی کی حاضری ریکارڈ کرنے کے نظام کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ نظام 5 منٹ تک اجلاس میں شریک ہونے والے ممبر اور 5 گھنٹے تک موجود دوسرے ممبر میں کوئی فرق نہیں کرتا۔

رپورٹ کےمطابق حاضری کے نظام کے ساتھ ایک اور مسئلہ کورم کی نشاندہی اور کورم کی کمی کی وجہ سے ملتوی ہونے والی نشستوں کی تعداد سے ظاہر ہوتا ہے حالانکہ ان نشستوں میں موجود ممبران اسمبلی کی تعداد مطلوبہ کورم سے کہیں زیادہ ہے۔16 ویں قومی اسمبلی نے ایجنڈا آئٹمز کی منصوبہ بندی اور نمٹانے کے معاملے میں نسبتاً کمزور کارکردگی دکھائی ہے

دستاویز کے مطابق 16 ویں قومی اسمبلی کے پہلے سال کے دوران، وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے کل 93 اجلاسوں میں سے صرف 17 اجلاسوں میں شرکت کی یا کل اجلاسوں کے صرف 18 فیصد میں شامل ہوئے جو کہ انتہائی افسوسناک ہے اور وزیر اعظم کی حاضری کا یہ کمزور ریکارڈ افسوسناک طور پر سابق وزیر اعظم پی ٹی آئی کی حاضری سے مطابقت رکھتا ہے جنہوں نے 15 ویں قومی اسمبلی کے پہلے سال میں 96 میں سے صرف 18 یا 19 فیصد اجلاسوں میں شرکت کی تھی جبکہ ان کے پیشرو وزیر اعظم نواز شریف نے 14ویں قومی اسمبلی کے پہلے سال کے 103 میں سے صرف سات اجلاسوں میں شرکت کی تھی۔

ان کے مقابلے میں قائد حزب اختلاف عمر ایوب خان نے سال میں 62 اجلاسوں میں شرکت کی جو کہ گزشتہ اسمبلی کے پہلے سال میں قائد حزب اختلاف محمد شہباز شریف نے 53 اجلاسوں میں اپنی حاضری یقینی بنائی تھی۔ عمر ایوب خان نے 16 ویں قومی اسمبلی کے پہلے سال کے دوران 13 گھنٹے اور 28 منٹ کے ریکارڈ شدہ ٹاک ٹائم کے ساتھ سب سے زیادہ بولنے والے ممبر اسمبلی بھی ہیں۔

16ویں قومی اسمبلی نے بھی قائمہ کمیٹیوں کی تشکیل سے متعلق اپنے اصول کو نظرانداز کیا اور اس کی خلاف ورزی کی۔ قومی اسمبلی میں قواعد و ضوابط اور طرز عمل کا قاعدہ 200 یہ حکم دیتا ہے کہ محکمہ جاتی قائمہ کمیٹیوں کے ارکان کا انتخاب اسمبلی کے ذریعہ قائد ایوان کے انتخاب کے بعد تیس دنوں کے اندر کیا جانا چاہیے، جس نے ایسا کرنے کی آخری تاریخ 3 اپریل 2024 کو مقرر کی تھی۔ تاہم 17 مئی 2024 تک کمیٹیوں کو فعال نہیں کیا گیا اور کمیٹیوں کے چیئرمینوں کے انتخاب میں مزید تاخیر ہوئی

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں

close