فرخ حبیب کے پی ٹی آئی چھوڑنے پر تحریک انصاف کا ردِعمل بھی آگیا

لاہور(پی این آئی) پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنماء سابق وفاقی وزیر حماد اظہر نے الزام عائد کیا ہے کہ پارٹی چھوڑنے والوں سے عمران خان کی مقبولیت کو کوئی فرق نہیں پڑا، پہلے تحریک انصاف چھوڑنے کا مطالبہ ہوتا تھا، پھر مطالبات بڑھتے گئے۔

انہوں نے ایکس پر اپنے ٹویٹ میں الزام عائد کیاکہ جو لوگ جبری گمشدگی میں رہے، ان میں سے ایک نے مجھے تاوان ادا کرنے کے بعد پیغام بھجوایا۔ کہا کے ایک ایک لفظ اوپر سے آیا تھا۔ باقاعدہ رٹا لگوایا گیا تھا۔ کسی ایک لفظ کو بھی حزف کرنے کی اجازت نا تھی۔ جو تشدد اس نے بیان کیا اس کے بعد بی جے پی میں شمولیت کی مجبوری بھی سجھ آ جائے۔ انہوں نے کہا کہ پہلے قابو آنے والوں سے صرف ایک ہی مطالبہ ہوتا تھا۔ تحریک انصاف چھوڑنا۔ اس سے عمران خان کی مقبولیت کو کوئی فرق نہیں پڑا۔ وقت کے ساتھ ساتھ مطالبات بڑھتے گئے۔ مثلًا استحکام پارٹی پھر ٹالک شو، عدالت میں بیان اور اب زبردستی کی عمران خان اور ان کے اہل خانہ پر تنقید۔ یاد رہے اس سے قبل فرخ حبیب نے پی ٹی آئی چھوڑنے اور آئی پی پی مین شمولیت کا اعلان کیا۔ سابق رہنماء پی ٹی آئی فرخ حبیب نے آئی پی پی میں شمولیت کے موقع پر نیوزکانفرنس میں بتایا کہ میں جو باتیں کررہا ہوں اپنے دل سے کررہا ہوں، میری باتیں بہت سے لوگوں کو بری لگیں گی۔

چیئرمین پی ٹی آئی بدقسمتی سے تشدد کی سوچ دیتے رہے، چیئرمین پی ٹی آئی کو آئینی راستے سے ہٹایا گیا تھا انہیں الیکشن کا انتظار کرنا چاہیئے تھا، لوگوں کو پیغام دیا گیا ایک ادارہ آپ کو سیاست نہیں کرنے دے رہا، لوگوں کو اس قدر بوائلنگ پوائنٹ پر پہنچایا گیا کہ اپنی فوج کے خلاف ہوگئے، سوال ہے کتنے مظاہرے کورکمانڈر ہاؤس، کینٹ یا فوجی املاک کے سامنے ہوئے؟افواج پاکستان کا تصور ملک کی سکیورٹی سے منسلک ہے، مودی دانت نکال کربیٹھا کہ کب پاکستان کو دبوچے مگر اس میں اتنی ہمت نہیں، کورونا کے دوران افواج پاکستان کا جو کردار تھا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، چیئرمین پی ٹی آئی گرفتار ہوئے تو اس دن دوائی کھا کے سویا ہوا تھا، اہلیہ نے بتایا عمران خان گرفتار ہوگیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی چاہتے تھے لوگ لڑیں مگر میں نے گرفتار نہیں ہونا ۔آپ نے بیگ بھی پیک کیا ہوا تھا پھر کہتے تھے مزاحمت بھی ہو، عمران خان کو اتنا بھی پتا نہیں ہوتا تھا کہ کس کی ٹانگ ٹوٹی ، کس کا ہاتھ ٹوٹا۔ میں نے جس عمران خان کو جوائن کیا تھا جس نے قائداعظم کے پاکستان کی بات کی تھی۔ لیڈرشپ کی سوچ میں فرق ہونا چاہیے۔ توشہ خانہ میں ہم نے نوازشریف، زرداری پر بڑی تنقید کی کہ یہ کلاسیفائڈ انفارمیشن کے پیچھے چھپ رہے ہیں، لیکن ہمیں یہ تو پتا ہی نہیں تھا کہ عمران خان نے بھی گھڑیاں لی ہوئی ہیں، آپ نے پیسے دے کر لی ہوں، یہ الگ بات ہے، عمران خان کہتا تھا کہ نوازشریف نے کتنا ٹیکس دیا؟ میں نے تو اتنا ٹیکس دیا ہے، آپ نے الیکشن کمیشن میں اثاثے ظاہر نہیں کئے۔

عمران خان کو زیب نہیں دیتا تھا کہ وہ اس طرح کرتے، اگر گھڑیاں لی تھیں، تو ہمیں پہلے ہی بتا دیتے۔ جب میں وزیرتھا کچھ چیزیں چھپائی جاتی تھیں، کلاسیفائڈ انفارمیشن ہے، ہم بشریٰ بی بی، فرحت شہزادی اور عثمان بزدار کا دفاع کرتے رہے۔اسی طرح القادر ٹرسٹ والا معاملہ آگیا، شوکت خانم پر کیوں تنقید نہیں ہوئی؟ انہوں نے کہا کہ سائفر معاملے پر نیشنل سکیورٹی میٹنگ کی صدارت چیئرمین پی ٹی آئی نے کی ، اس میٹنگ کا اعلامیہ جاری ہوتا ہے کہ یہ مداخلت ہے سازش نہیں،سائفر کے معاملے پر امریکی سفارتکاروں کو ڈیمارش کرنا تھا، سائفر کے معاملے کر ڈیمارش کرکے ختم کردینا چاہیئے تھا۔ چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ سائفر پر سیاسی بیانیہ بنانا ہے۔اسی طرح فرخ حبیب نے آئی پی پی کے رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے استحکام پاکستان پارٹی میں شمولیت کا اعلان کیا اور کہا کہ پچھلے 20 روز سے میں نے اپنا رابطہ اپنی فیملی کے ساتھ منقطع کیا ہوا تھا،پچھلے پانچ ماہ سے ہم اپنے گھروں میں موجود نہیں تھے۔ حالات کے تسلسل اور جذبات کی وجہ سے میں بہت آگے نکل گیا تھا۔ 9 مئی کے واقعات انتہائی افسوسناک ، قابلِ مذمت اور سیاہ دن تھا۔معصوم لوگوں کے ذہنوں کو ہائی جیک کیا تھا۔عمران خان نے مزاحمت اور تشدد کا راستہ اختیار کیا، عدم اعتماد کے بعد ہمیں چین سے بیٹھنے نہیں دیا گیا،عمران خان کو الیکشن کا انتظار کرنا چاہیے تھا۔

عوام کے ذہنوں میں نفرت کا بیج بُویا، جذبات کی وجہ سے میں بہت آگے نکل گیا، ہم ملک کو تشدد کی سطح پر لے آئے، آئینی طریقے سے عدم اعتماد ہوا۔ عدم اعتماد کے بعد ہمیں چین سے بیٹھنے نہیں گیا، نہ ہی عوام کو۔تحریک عدم اعتماد کے بعد جمہوری طریقے سے جدوجہد کرنی چاہئیے۔ ہم 9 مئی کے واقعات پر قانون کا سامنا نہیں کر رہے تھے۔ ہم جمہوری جدوجہد سے ہٹ کر ملک کو تشدد کی طرف لے آئے۔ خود احتسابی کا عمل بہت ضروری ہوتا ہے ہم تو قائد اعظم کا پاکستان بنانے کے لیے شامل ہوئے تھے۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں