ن لیگ کی آڈیوز، ویڈیوز کیوں نہیں آ رہیں؟ اعتزاز احسن نے سوال اٹھا دیا

لاہور (پی این آئی) اعتزاز احسن کے مطابق ن لیگ کے خلاف کوئی آڈیو ویڈیو نہیں آرہی، یہ سوچنے کی بات ہے، دو گھریلو خواتین آپس میں بات کررہی ہیں اور اس کی آڈیو منظرعام پر آگئی، چیف جسٹس عمرعطاء بندیال کی ساس کی آڈیو پر اس کو ثابت کرنا ممکن نہیں ہے۔ تفصیلات کے مطابق ملک کے سینئر قانون دان اور پیپلز پارٹی کے رہنما اعتزاز احسن نے آئے دن سامنے آنے والی آڈیو لیکس کے حوالے سے اپنے ردعمل میں اہم سوال اٹھایا ہے۔

ایکسپریس نیوز کی رپورٹ کے مطابق اعتزاز احسن نے منگل کے روز صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 2 گھریلو خواتین کی آپس میں کی گئی بات کی تو آڈیو سامنے آ گئی، جبکہ سوچا جائے تو ن لیگ والوں کی کوئی آڈیو لیک نہیں ہوئی۔ ایک اور آڈیو آئی جس میں عجیب بات کہی گئی ہے کہ اعتزاز احسن بلاول ہاؤس گیا تو انہیں دروازے سے ہی واپس بھیج دیا گیا، وہاں میڈیا 24 گھنٹے موجود رہتا ہے، بڑے معتبر لوگوں نے یہ بات چلائی ہے اگر میرے ساتھ ایسا ہوا ہے تو ویڈیو سامنے آنی چاہیے اور اگر کوئی ویڈیو نہیں ہے تو اس خبر کو چلانے والے اپنی اصلاح کرلیں۔سینئر پی پی رہنما نے مزید کہا کہ چیف جسٹس عمرعطاء بندیال کی ساس کی آڈیو پر اس کو ثابت کرنا ممکن نہیں ہے۔ دوسری جانب منگل کے روز سپریم کورٹ میں مبینہ آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کیخلاف درخواستوں پر سماعت ہوئی،چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے سماعت کی۔ اٹارنی جنرل نے دوران سماعت دلائل دئیے کہ کوئی بھی شخص اپنے کاز کا خود جج نہیں ہو سکتا،ہماری اس معاملے پر کوئی بدنیتی نہیں۔بینچ تبدیل ہونے سے کمیشن کیخلاف عدالت آئے،درخواست گزار کا حق متاثر نہیں ہو گا،استدعا ہے کہ بینچ تبدیلی کی درخواست کو زیر غور لائیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کا اعتراض دو اور ججز پر ہے۔ اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ ہماری درخواست کا متن آپ کے سامنے ہے اس کا جائزہ لیں۔ درخواست گزار عابد زبیری کے وکیل شعیب شاہین نے دلائل دئیے کہ آڈیوز کو درست سمجھ کر کہہ دیا گیا کہ عدلیہ کی آزادی متاثر ہوئی،انکوائری کمیشن کے قیام کے ٹی او آرز میں آڈیو ٹیپ کرنے والے کا ذکر نہیں۔وکیل نے کہا کہ ساری آڈیوز پنجاب انتخابات سے متعلق از خود نوٹس کے بعد آنا شروع ہوئیں،یہ آڈیو ریکارڈنگ کس نے کی؟ تمام آڈیوز ایک ہی ہیکرز کے ذریعے منظر عام پر لائی گئیں۔ چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دئیے کہ کیا حکومت نے معلوم کرنے کی کوشش کی یہ آڈیوز کون لیک کر رہا ہے؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ حکومت چاہتی ہے آڈیوز سے متعلق ساری تحقیقات کمیشن کرے،جو وزراء اپنے طور پر بیان دیتے ہیں انہیں حکومت کا بیان نہ سمجھا جائے۔جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دئیے کہ کسی بھی ملک میں جب وزراء بیان دیتے ہیں تو انہیں حکومتی بیان سمجھا جاتا ہے۔ بے نظیر بھٹو کیس میں چار ججز کی اپنی آڈیوز تھیں،کیا ان ججز نے کیس سن کر غلط کیا؟۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ بے نظیر بھٹو کیس میں کسی نے بینچ پر اعتراض نہیں اٹھایا تھا۔ سپریم کورٹ نے بینچ پر اعتراض سے متعلق فیصلہ محفوظ کر لیا،چیف جسٹس کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے وفاقی حکومت کی درخواست پر سماعت مکمل کی۔آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کیخلاف دائر درخواستوں پر سماعت ملتوی کر دی گئی۔ قبل ازیں دوران سماعت چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دئیے کہ جج کو توہین عدالت کی درخواست میں فریق نہیں بنایا جاسکتا،اٹارنی جنرل صاحب،جج پر الزامات لگا کر بینچ سے الگ ہونے کا نہیں کہا جاسکتا۔ چیف جسٹس یا جج پر الزامات لگا کر اختیارات کم نہیں کیے جاسکتے،چیف جسٹس صرف غیرموجودگی میں اپنا قائم مقام مقرر کرتا ہے۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں