اناؤں کے بُت سینئر صحافی سہیل اقبال بھٹی کا کالم

دنیا کے کسی بھی ملک یا کسی بھی کونے میں جائیں ،آپ کو چین کی بنی اشیا نظرآئیں گی ۔ چین میں تیار کردہ چیزیں دنیا بھر میں فروخت ہورہی ہیں۔ آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے ملک چین نے اتنی تیزی سے ترقی کیسے کی۔چین کیسے دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن کر ابھرا جبکہ اس کے بغل میں موجود قدرتی وسائل سے مالا مال پاکستان آگے کے بجائے پیچھے کیوں جارہا ہے۔ اس سوال کا جواب بالکل آسان اور سادہ ہے۔ اتحاد و اتفاق اور محنت۔آج کے دو تین واقعات کو ہی مثال کے طور پر لیجئے، چین کی ترقی اور پاکستان کی پستی میں جانے کی وجوہات کو باآسانی سمجھا جاسکتا ہے ۔

پچھلے دس سال سے بڑے عہدے پر فائز رہنے والے شی جن پنگ اب تیسری بار چین کے صدر منتخب ہوگئے ہیں۔ حیرانگی کی بات یہ نہیں کہ وہ مسلسل تیسری بار صدر بن گئے بلکہ دلچسپ امر یہ کہ چین میں نہ کہیں دھاندلی کا نعرہ لگا نہ ہی دنگا فساد برپا ہوا۔ کسی نے سسٹم پر انگلی اٹھائی نہ کسی نے الیکشن پر سوالات اٹھائے ۔ تین ہزار ارکان پر مشتمل بھاری بھرکم پارلیمنٹ میں صرف ایک گھنٹے میں صدر کے انتخاب کیلئے الیکٹرانک ووٹنگ ہوئی۔

پندرہ منٹ میں ووٹوں کی گنتی مکمل ہوئی اوریوں شی جن پنگ تیسری بڑی معیشت کے صدر منتخب ہوگئے۔ ملک کے سب سے بڑے عہدے کیلئے اہم ترین الیکشن کیلئے چینی قوم کے نمائندوں نے وقت کی پابندی کا جو مظاہرہ کیا وہ یقینا قابل رشک ہے۔۔ ہمارے ہاں اس کے بالکل برعکس ہے،الٹی گنگا بہتی ہے۔عام انتخابات تو دور کی بات،معمولی پراسسز پر کئی کئی مہینے اور قومی وسائل ضائع کیے جاتے ہیں۔ انتخابات کی تاریخ کون دے؟ اختیارکس کا ہے؟ آئین و قانون کی موٹی کتاب ہونے کے باوجود اس طرح کے معاملات اعلیٰ عدالتوں تک پہنچ جاتے ہیں ۔ یہی نہیں عام انتخابات جیسے تیسے ہوبھی جائیں،اس کے بعد دھاندلی کی رٹ شروع ہوجاتی ہے۔بات جلاو گھیراو سے نکل کر ہلاکتوں تک جا پہنچتی ہے ۔

ہمارا دوست اور پڑوسی ملک چین کس طرح ایک ایک لمحے کو اپنی قوم کی ترقی اور خوشحالی کیلئے استعمال کررہا ہے اس کی طرف ہم نے کبھی دھیان نہیں دیا ۔ بدقسمتی سے ہمیں وقت تو کیا،انسانی جانوں تک کا خیال نہیں۔75 سال گزر گئے لیکن ہمارا سسٹم اللہ کے آسرے پر چل رہا ہے۔سینیٹ،قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی ہوتے ہوئے بھی نہ انتخابی اصلاحات ہوئیں نہ نظام میں کوئی بہتری لائی گئی۔ہم نے دوست ملک سے بھی کچھ نہ سیکھا۔ ان کی ترقی کی باتیں تو کرتے ہیں لیکن اس کے پیچھے پنہاں راز کو ہاتھ نہیں لگاتے ۔

آج اگردنیا میڈ ان چائنا بن چکی ہےتواس کے پیچھے یہی عوامل ہیں کہ چین نہ فضولیات میں وقت ضائع کرتاہے نہ دنگا فساد میں۔ اس قوم کو دوسری اقوام پر راج تاج کرنے اور عالمی معاملات سلجھانےکا حق بھی ہے کیونکہ یہ نہ صرف خود اتحاد و اتفاق کی قائل ہے بلکہ دوسرے ممالک کو بھی امن و سلامتی اور پیار و محبت سے رہنا کی تلقین کرتی ہے۔ایران اور سعودی عرب کے درمیان طویل کشیدگی کو ختم کرکے انہیں شیر و شکر بنانے میں بھی چینی قیادت کے کلیدی کردار ادا کرکےدنیا کو حیران کردیا ہے۔6سے 10مارچ کے دوران بیجنگ میں ہونے والے مذاکرات کے بعد ایران اور سعودی عرب نے سفارتی تعلقات کی بحالی اور دو ماہ کے اندر اپنے سفارت خانے دوبارہ کھولنے پرنہ صرف اتفاق کرلیا ہے بلکہ اس حوالے سے باقاعدہ ایک معاہدہ بھی کیا جس کا ضامن چین ہوگا۔

چین کی ثالثی کے باعث سات سال بعد دونوں مسلم ممالک کا قریب آنا انتہائی خوش آئند ہے۔اس نئی ڈویلپمنٹ کے مشرق وسطی میں اچھے اور مثبت اثر مرتب ہوں گے۔

شام ،یمن اورلبنان میں دہشت گردی اور فرقہ واریت کا طویل دورختم کاخاتمہ اور ترقی کا نیا دور شروع ہوگا ۔ یاد رہے اس سے پہلے کئی ممالک نے سعودیہ اور ایران کے تعلقات بحال کرنے کی کوشش کی لیکن سعودیہ اور ایران کسی پر اعتماد کرنے کیلئے تیار نہیں تھے۔

دونوں نے چینی قیادت پراعتماد کرکے دنیا کو پیغام بھی دے دیا کہ طاقت کے محور اب بدل رہے ہیں۔چین کو سپر پاور بننے میں اب زیادہ دیر نہیں ۔

جیسا کہ آپ نے دیکھا کہ دنیا کے حالات تیزی سے بدل رہے ہیں ،دشمنیاں دوستی میں بدل رہی ہیں۔ قومیں آگے بڑھنے کیلئے اختلافات بالائے رکھتے ہوئے اپنے حریفوں سے ہاتھ ملارہی ہیں لیکن پاکستان کی سوئی ذاتی اختلافات میں ہی اٹکی ہوئی ہے۔ ہم دلدل میں تھے اوراب دلدل میں مزید دھنستے جارہےہیں۔ یوں لگتاہے کہ ہم نے مشکلات اور مسائل کے بھنورسے نہ نکلنے کی قسم کھارکھی ہے۔ ہم آج کراچی،لاہور پشاور میں بٹے ہوئے ہیں۔ ہم پنجابی،سندھی اور بلوچی میں تقسیم ہیں۔ ہماری معیشت ریورس گیر پر ہے۔ ہمارا گلا سڑا نظام عام آدمی کیلئے بے سود ہوچکا ہے۔

دہشت گردی،غربت،بے روزگاری اور فرقہ واریت جیسے بڑے مسائل درپیش ہیں۔لوگ بھوک سے مررہے ہیں۔ معصوم جانیں دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ رہی ہیں۔ پڑھے لکھے لوگ ملک سے بھاگ رہے ہیں۔ سرمایہ دار اپنی دولت سمیٹ کر بیرون ملک اپنا بسیرا بنا رہے ہیں۔ لیکن کسی کو ان مسائل کی کوئی فکر نہیں۔ حکمرانوں اور سیاستدانوں نے اپنی اپنی اناوں کے بت بنائے ہوئے ہیں جن کی وہ صبح و شام پوجا کرتے ہیں۔ انہیں اپنے علاوہ کوئی اور نظر نہیں آتا ۔ یہ شی پنگ سے ملتے تو ہیں لیکن کبھی شی سے ان کی ترقی کا راز نہیں پوچھتے۔

سیاسی و معاشی افراتفری کا عالم یہ ہے کہ ملکی ایکسپورٹس کا برا حال ہے۔ زرعی ملک ہونے کے باوجود اربوں ڈالر سے اجناس باہر سے منگوانے پر مجبور ہوچکےہیں۔ فیکٹریاں بند ہورہی ہیں اور صنعتوں کو تالے لگ رہے ہیں۔ کھانے پینے کی اشیاء تک امپورٹ ہورہی ہے جس کی وجہ سے زرمبادلہ کے ذخائر پر دباو مسلسل بڑھ رہا ہے۔ خوردنی تیل اور پام آئل بھی ہم ڈالر میں امپورٹ کرتے ہیں جس کی وجہ سے معیشت کا بیڑہ غرق ہوچکا ۔اگر کوئی ملک میں ان اشیا کی پیدوار کا سوچتا ہے یا عملی طور پر کچھ کرتا ہے تو اس کے ہاتھ بھی روکے جاتے ہیں۔آپ کو اس بات پرشاید یقین نہیں آئے گا کہ حال ہی میں پاکستان آئل سیڈ ڈیولپمنٹ بورڈ نے جب ٹھٹھہ کے علاقے گھوڑا باری میں پام آئل پام کے درخت لگائے ۔

منصوبہ کامیاب ہوا اور درختوں پربڑی مقدار میں پھل لگ گیا تو اس منصوبے کا ہی گلا گھونٹ دیا گیا۔ پام کے درختوں پر جس حساب یا مقدار سے پھل لگا۔ پام کی پیدوار میں مشہورملک ملائیشیا کے ماہرین بھی اسے دیکھ حیران ہوئے۔ منصوبہ کس نے اور کیوں روکا؟ یہ تحقیقات طلب معاملہ ہے کیونکہ یہ سراسر ملک دشمنی ہے۔ اہل اقتدار کو اس معاملے کی تہہ تک ضرور پہنچنا چاہیے۔اہل اقتدارواہل اختیار ایک بات لکھ کررکھ لیں پاکستان کی پائیدار ترقی اور سلامتی صرف اور صرف “میڈان پاکستان”سے یقینی بنائی جاسکتی ہے اور میڈ ان پاکستان کا خواب فرسودہ نظام اور ذاتی اختلافات کے خاتمے سے ہی ممکن ہوسکے گا۔۔۔۔

close