اسلام آ باد (آئی این پی ) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی پارلیمانی امور نے سینیٹر رضا ربانی کا ممبران سینیٹ اور قومی اسمبلی کے استحقاق اور استثنی کا بل اتفاق رائے سے منظور کر لیا،بل کے مطابق کسی رکن کو وزیر اعظم یا وزیر ا علیٰ کے ووٹ یا منی بل یا تحریک اعتماد یا عدم اعتماد کے ایک ہفتے قبل گرفتار نہیں کیا جائے گا۔کسی رکن کو اسپیکر یا چئیرمین کی اجازت کے بغیر پارلیمنٹ کی حدود سے گرفتار نہیں کیا جائے گا ۔سینیٹ کی قائمہ کمیٹی پارلیمانی امور کا سینیٹر تاج حیدر کی زیر صدارت اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس میں سینیٹر رضا ربانی کے ممبر پارلیمنٹ کے استحقاق بل کا جائزہ لیا گیا۔
کمیٹی کو بریفنگ میں سینیٹر رضا ربانی نے بتایا کہ ہماری تاریخ میں ممبر پارلیمنٹ کو سیاسی ایجنڈا کی تکمیل کے لیے زیر حراست رکھا گیا۔میں نے ممبر پارلیمنٹ کو حراست میں رکھنے کے حوالے سے پانچ صفحے پر مشتمل خط اسپیکر اور چئیرمین سینیٹ کو لکھا ۔چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ آپ اس حوالے سے بل لے آئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ ممبر پارلیمنٹ کو اسپیکر یا چیئرمین سینیٹ کی اجازت کے بغیر گرفتار نہیں کیا جا سکتا۔میں نے اسپیکر اور چئیرمین کو خط میں لکھا کہ قانون کے مطابق ایسا ممکن نہیں ہے۔میں نے بل میں کہا کہ اجلاس کے 15 دن سے قبل اور بعد میں ممبر کو حفاظتی تحویل میں نہیں لیا جائے گا۔ممبر کی پارلیمنٹ کی حدود سے گرفتاری نہیں ہو گی۔ووٹ سے ایک ہفتے قبل رکن کو گرفتار نہیں کیا جائے گا، کیونکہ دیکھا گیا کہ تحریک عدم اعتماد کے وقت اکثر ممبران کو حفاظتی تحویل میں لے لیا جاتا ہے۔وزارت پارلیمانی امور نے کہا کہ آپ اپنا بل واپس لیں اور سینیٹ رولز میں ترمیم کریں، وزارت پارلیمانی امور مجھے تجویز نہیں کر سکتی، ان کی تجویز پر میں عمل نہیں کر سکتا ۔بھارت ، برطانیہ میں اس طرز پر قانون موجود ہیں۔سیکریٹری پارلیمانی امور نے کہا کہ وزارت پارلیمانی امور نے خط وزارت قانون کو لکھا ، ان کی رائے لینے، کمیٹی کو رائے نہیں دی۔قومی اسمبلی نے اپنے رولز میں ترمیم کر لی ، ہم نے کہا کہ سینیٹ بھی ایسا کر سکتا ہے۔سینیٹر رضا ربانی کا بل بہت اہم ہے۔اس بل کا نام ممبر پارلیمنٹ استثنی اور استحقاق بل لکھ دیا جائے۔
اگر پندرہ روز قبل یا بعد ممبر کو حفاظتی تحویل میں نہ لیا جائے تو اس سے تو پھر سارا سال ممبر کو حفاظتی تحویل میں نہیں لیا جا سکتا ، یہ پریکٹکل نہیں ہے۔سینیٹر رضا ربانی کا کہنا تھا کہ ممبر کو اجلاس کے دوران حفاظتی تحویل میں نہ لیا جائے ، اس کو اس طرح سے تبدیل کیا جا سکتا ہے۔سینیٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ اجلاس طلب کئے جانے کے بعد رکن کو گرفتار نہ کیا جائے۔سینیٹر تاج حیدرنے کہا کہ اگر کوئی اس قانون کی خلاف ورزی کرے تو پھر کیا کیا جایے گا۔سینیٹر رضا ربانی کا کہنا تھا کہ اس بل کو پہلے ہی ہضم کرنا بھی بہت لوگوں کے لئے مشکل ہو گا۔اس بل کو روکنے بہت طریقے اختیار کیے جائیں گے۔اجلاس کے صدر کی جانب سے طلب کئے جانے لے بعد رکن کو گرفتار نہیں کیا جایے گا ۔سینیٹر افنان اللہ نے کہا کہ بل میں شامل کیا جائے کہ خلاف ورزی کرنے والے افسر کو معطل کیا جائے۔ سینیٹر علی ظفر کا کہناتھا کہ ابھی ہم یہ قانون بنا لیں اگر کوئی قانون کی خلاف ورزی کرے تو پھر ہم دیکھ لیں گے کہ اس کا کیا کیا جائے، اس میں ابھی سزا سمجھ نہیں آ رہی۔جرمانے کے حوالے سے ہم بعد میں دیکھ لیتے ہیں۔سینیٹ کی قائمہ کمیٹی پارلیمانی امور نے سینیٹر رضا ربانی کا ممبران سینیٹ اور قومی اسمبلی کے استحقاق اور استثنی کا بل منظور کر لیا۔ ممبر پارلیمنٹ استثنی اور استحقاق بل کے متن میں کہا گیا ہے کہ کسی ممبر قومی اسمبلی یا سینیٹ کو اجلاس طلب کیے جانے کے بعد گرفتار نہیں کیا جائے گا۔کسی رکن کے خلاف کیس رجسٹریشن پر اس کی کاپی 24 گھنٹے کے اندر اسپیکر یا چیئرمین کو مہیا کی جائے گی۔رکن قومی اسمبلء یا سینیٹ کو گرفتار یا حراست میں لینے سے قبل اسپیکر یا چیئر مین کو فوری آگاہ کیا جائے گا اور گرفتاری یا حراست میں لینے کی وجوہات بتائی جائیں گی۔زیر حراست رکن کو اسپیکر یا چیئر مین طلب کرے گا۔کسی رکن کو وزیر اعظم یا وزیر اعلی کے ووٹ یا منی بل یا تحریک اعتماد یا عدم اعتماد کے ایک ہفتے قبل گرفتار نہیں کیا جائے گا۔کسی رکن کس اسپیکر یا چیئرمین کی اجازت کے بغیر پارلیمنٹ کی حدود سے گرفتار نہیں کیا جائے گا۔ میڈیا سے گفتگو میں سینیٹر رضا ربانی کا کہنا تھا کہ ارکان پارلیمنٹ کو وفاداریاں تبدیل کرنے یا ووٹ سے روکنے کے لئے یا تو اغوا کر کیا جاتا رہا ہے یا نیب کے کیس بنا دیئے جاتے رہے۔اس قانون کے زریعے ارٹیکل 63اے کے اندر مختلف ووٹس کو کور کرنے کی کوشش کی ہے اس قانون کے تحت اجلاس بلائے جانے کے بعد کسی ممبر کو گرفتار نہیں کیا جا سکے گا۔ چیئر مین سینٹ یا سپیکر قومی اسمبلی گرفتار ممبران کو ایوان میں بلا سکتے ہیں۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں