وفاقی حکومت کا ارشد شریف کے قتل پر بنایا گیا انکوائری کمیشن مسترد، ارشد شریف کی والدہ میدان میں آگئیں

اسلام آباد (پی این آئی) ارشد شریف کی والدہ نے وزیر اعظم کے اعلان کردہ انکوائری کمیشن کو مسترد کر دیا۔ تفصیلات کے مطابق سینئر صحافی ارشد شریف کی والدہ کی جانب سے وزیر اعظم کے اعلان کردہ انکوائری کمیشن کے معاملے پر ردعمل دیا گیا ہے۔

 

 

شہید صحافی کی والدہ نے کہا ہے کہ اعلان کردہ انکوائری کمیشن وزیر اعظم کے بیان سے متصادم ہے، ایسے کمیشن سے آزادانہ تحقیقات کی بالکل توقع نہیں۔ بیٹے کے قتل کی تحقیقات کیلئے ہائی پاور جوڈیشل کمیشن یا انسانی حقوق کمیٹی پر مشتمل کمیشن تشکیل دیا جائے۔ شہید ارشد شریف کی والدہ نے مزید کہا ہے کہ حکومت نے میرے بیٹے کیخلاف بغاوت کے مقدمات بنائے، میرے بیٹے پر ملک کی زمین تنگ کر دی گئی، اب میرے بیٹے کے قتل پر سیاست کرنا بند کی جائے۔ واضح رہے کہ وزیراعظم شہباز شریف نے ارشد شریف کی موت کی تحقیقات کیلئے انکوائری کمیشن قائم کردیا، جس کا باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا ہے۔ نوٹیفکیشن میں بتایا گیا کہ لاہور ہائیکورٹ کے سابق جج عبدالشکور پراچہ انکوائری کمیشن کے سربراہ ہوں گے، ایڈیشنل آئی جی پولیس ڈاکٹر عثمان انور انکوائری کمیشن کے رکن ہوں گے۔ ڈپٹی ڈائریکٹر آئی بی عمر شاہد حامد بھی انکوائری کمیشن کے رکن ہوں گے۔انکوائری کمیشن پاکستان کمیشن آف انکوائری ایکٹ 2017کے تحت قائم کیا گیا ہے۔ انکوائری کمیشن شہید صحافی ارشد شریف کی موت کی تحقیقات کرے گا۔

 

 

انکوائری کمیشن وفاقی حکومت کو تیس دنوں میں اپنی رپورٹ جمع کرائے گا۔ دوسری جانب اس المناک واقعے کی تحقیقات کے سلسلے میں وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے اور انٹیلی جنس بیورو کے افسران پر مشتمل 2 رکنی ٹیم تحقیقات کے لیے کینیا میں ہے، جہاں وقار اور خرم کا تحقیقاتی ٹیم کو دیا بیان سامنے آگیا، دونوں بھائیوں نے پاکستانی تحقیقاتی افسران کو بتایا کہ ارشد شریف نیروبی منتقل ہونے کا سوچ رہے تھے اور اس کے لیے انہوں نے ویزے کی مدت بھی بڑھوائی۔ ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کیا گیا ہے کہ پاکستانی افسران نے کراچی کے شہریوں وقار احمد اور خرم احمد سے کینیا میں پوچھ گچھ کی، اس دوران دونوں بھائیوں سے واقعے سے متعلق متعدد سوالات پوچھے گئے، جن کے جواب میں وقار احمد نے بتایا نیروبی سے قبل ارشد شریف سے صرف ایک بار کھانے پر ملاقات ہوئی تھی، کسی دوست نے ارشد شریف کی میزبانی کا کہا، ارشد شریف میرے گیسٹ ہاؤس پر 2 ماہ تک قیام پذیر رہے۔

 

 

رپورٹ میں ذرائع کے حوالے سے معلوم ہوا ہے کہ وقار احمد نے تحقیقاتی ٹیم کو بتایا کہ نیروبی سے باہر اپنے لاج پر ارشد شریف کو کھانے پر مدعو کیا، واقعے کے روز ارشد شریف نے لاج پر ساتھ کھانا کھایا، کھانے کے بعد ارشد شریف میرے بھائی خرم کے ساتھ گاڑی میں نکلے اور آدھے گھنٹے بعد گاڑی پر فائرنگ کی اطلاع آئی، خرم فائرنگ کے واقعے کے دوران معجزانہ طور پر محفوظ رہے، ارشد شریف کے زیر استعمال آئی پیڈ اور موبائل فون کینیا کے حکام کے حوالے کر دیا۔ ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کیا گیا کہ خرم احمد نے بتایا کہ لاج سے نکلنے کے بعد 18 کلومیٹر کا کچا راستہ ہے اور پھر سڑک شروع ہوتی ہے، سڑک شروع ہونے سے تھوڑا پہلے کچھ پتھر رکھے تھے، پتھروں کو کراس کرتے ہی فائرنگ ہو گئی، فائرنگ سے خوفزدہ ہوکر گاڑی بھگا لی تھی۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں