کنول مطلوب کب ہماری تھی؟راولاکوٹ سے آصف اشرف کی تحریر

کنول مرجھا گئی۔۔۔کنول ہوتی ہی مرجھانے کے لیے ہے۔ اگر وہ مرجھائے نہ تو پھر کنول تو نہ ہوئی۔ گلاب ٹھہرے وہ۔ برسوں پہلے اس جہاں سے جانے والے ایک قلندر نے کہا تھا بچہ دشمن کا بھی ہو لخت جگر لگتا ہے اور پھر میری ایک اپنی بڑی جو اولاد سے محروم اس دنیا سے گئی اس کا کہنا تھا کہ بچے گھر کی رونق ہوتے ہیں اور پھر اپنی ہی ایک بڑے بزرگ جن کی جواں سال بیٹی اچانک جب دنیا سے رخصت ہوئی تو انہیں یہ لکھنا پڑا کہ بچے بچے ہی رہنے چاہیے۔ بچے کبھی بڑے نہیں ہونے چاہیے کیونکہ جب بچے بڑے ہوتے ہیں تو مر جاتے ہیں۔

بچوں سے محبت کا سب سے بڑا دل برا واقعہ پیغمبر آخر کا ہے جب وہ ایک مجلس میں اپنے پیارے نواسوں سے لاڈ کر رہے تھے تو وہیں بیٹھے امرع بن حالبس کہنے لگے کہ میرے بھی کوئی دس بچے ہیں لیکن میں نے آج تک ان سے اتنا لاڈ اور پیار نہیں کیا۔ قربان جائیے آقائے دو جہاں پر اس کی یہ بات سن کر وہ کہنے لگے کہ اگر تمہارے دل سے خدا کی ذات محبت سلب کر لے تو میں کیا کر سکتا ہوں۔۔۔بچوں سے محبت شاید فطرت کا تقاضا ہے اور وہ گھر جن میں بچے رہتے ہیں وہی بھرے بھرے نظر آتے ہیں۔ والدین کی طرح اگر گھر میں بچے نہ ہوں تو ایک قیامت بھرپا رہتی ہے۔ ویرانی کا منظر رہتا ہے۔ ہر بچے کو جب اپنا بچہ سمجھا جائے تب ہی بچوں سے پیار کا حق ادا ہوتا ہے۔ گئے عرصہ کی بات ہے ہمسایہ ملک کے قصور شہر میں ایک معصوم بچی زینب کے ساتھ درندگی کا شرمناک مظاہرہ ہوا۔ جب وہ کہانی پورے پاکستان میں گونجی تو ایک ہلچل مچ گئی۔

اس پر نوٹس لیا گیا اور پھر معصوم بچی کی عزت سے کھیلنے والے درندے کو پھانسی پر لٹکایا گیا۔ سمجھا یہ گیا کہ شاید اب کسی اور معصوم زینب کی عزت سے کوئی درندہ نہ کھیلے۔ یہاں تو مدینہ کی ریاست کے دعویدار نے یہ قانون بھی بنوایا کہ اگر کسی معصوم کی عزت سے کوئی کھیلے گا تو اس کو نا مرد ہی کر لیا جائے گا۔۔۔لیکن سب دعوے، سب قانون ریت کی دیوار اور جھوٹ کے ناول ثابت ہوئے۔ پھر ایک اور سانحہ ہوا لیکن اب کی بار لٹنے والی بنتِ حوا کسی ایٹمی ملک کی شہزادی بھی نہیں تھی اور نہ کسی اسلامی ملک کی کوئی “مسلمان “۔ وہ ٹکڑوں میں بٹے میرے مادر وطن جموں کشمیر کی کنول تھی۔اس کی بے کسی، بے بسی اور غربت شاید قاتل درندے کو بھی معلوم تھی اسی لیے اس نے بھی کوئی خوف نہ کیا۔۔۔قاتل کو شاید ادراک تھا کہ کون ہے جو اس کا سراغ لگا سکے گا۔ اس نے جنسی تسکین حاصل کرنا تھی اور اس کے لیے اسے ایک بے حال، بے بس قوم کی بیٹی “میسر”تھی۔غربت کا شکار ان معصوم بچوں اور بچیوں کا کیا کہنا انہیں کوئی سواری کی لالچ دے دے یا چیونگم اور چاکلیٹ کی وہ سب کچھ بھول جاتے ہیں۔ شاید ایسا ہی کنول کے ساتھ بھی ہوا اور پھر وہ کلی مرجھا گئی۔

اب کی بار پھر کنول کی گمشدگی نے ثابت کر دکھایا کہ آزادی کیا ہوتی ہے۔ کنول کے اپنے وطن کا نہ کوئی الیکٹرانک چینل تھا نہ کوئی حامد میر نہ کوئی عاصمہ شیرازی تھی کہ آواز اٹھاتی۔ اور پھر سب کچھ بھول بھلیوں کی نظر ہوتا گیا۔اب میرپور کی دھرتی میں ارشد بلو بھی نہ تھا جو دیوانہ وار سڑکوں پر نکلتا۔ بڑے نیک صفتوں کے نزدیک بلو بھی مجرم اور گنہگار تھا لیکن میرے لیے وہ محسن ہے۔کسی جاننے والے نے بتایا تھا کہ کنول سے جنسی تسکین بجھانے والے درندے کی طرح اس وقت کے دور میں بلو کے ایک قریبی جاننے والے نے بھی کسی کے گھر کی عزت سے ہوس کی آگ بجھائی۔ بلو کو خبر ہو گئی۔ رات سینما سے فلم دیکھنے کے بعد جب لوگ باہر نکلے تو بلو نے موقع پا کر اس درندے کو اپنی پکڑ میں لے لیا۔ اندھیرے کا فائدہ اٹھا کر اس پر بے تحاشہ تشدد کیا۔ اچانک بجلی آئی۔ مار کھانے والے کی جب نظر پڑی تو مارنے والا ارشد بلو تھا۔

اس نے نیچے سے مخاطب ہو کر کہا میرے پیارے۔۔۔تم اور مجھ سے یہ سلوک۔ بلو نے باور کروایا،تمہارا جرم ایسا ہی تھا۔ سماج دشمن عناصر نے سالوں پہلے منصوبہ بندی کر کے بلو کے قتل کے بعد مزاحمت کی دوسری بڑی آواز لالہ ذوالفقار چوہدری کو بھی بے وطن ہونے پر مجبور کیا اور بے اثر ہونے پر بھی۔۔۔افسر شاید اور علی زمان کو بھی راہوں سے اتار دیا اور آج زینب سے درندگی کے بعد یہ ثابت ہو رہا ہے کہ قیادت نہ ہو تو ہوس کے مارے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ میرے وطن کے بادشاہ بیرسٹر سلطان محمود چوہدری نے اس درندگی اور قتل کے ملزم کو کڑی سزا دینے کا اعلان کیا لیکن کیا ایسا ممکن ہو گا۔ جہاں اس درندگی اور ہوس کو ایک آزاد ملک اور نو آبادیاتی کالونی کے درمیان “فرق”بنا کر رکھ دیا جائے۔ جہاں عدلیہ سفارش کی بنیاد پر وجود میں آئے۔ کیاممکن ہے کہ وہاں عدلیہ ایسی پھانسی کا اعلان کر سکے کہ قصور کے درندے کی طرح فیصل آباد کا درندہ بھی اپنے انجام کو پہنچے۔

سری لنکن شہری کو بچانے والے ملک عدنان کے لیے تو مدینہ کی ریاست کے بادشاہ نے تمغہ شجاعت کا اعلان بھی کیا اور ایوان وزیر اعظم میں تقریب کا انعقاد کیا لیکن بیرسٹر سلطان اور عبدالقیوم خان نیازی کو یہ توفیق نہ ہو پائی کہ وہ ڈڈیال کی کنول کے ساتھ درندگی کر کے اسے قتل کرنے والے ظالم کو گرفتار کرنے والے اور اسے ٹریس کرنے والے مقامی پولیس آفیسر کو حوصلہ افزائی کے لیے ایک تقریب کا اہتمام کرتے۔ چونکہ مدمقابل سری لنکا نہیں اہل کشمیر جو تھے۔تیرہ سال کی معصوم کنول جب “آزاد ” کہلانے والے کشمیر میں درندگی کی بھینٹ چڑھ کر اگلے جہاں سدھار گئی تو اس کے جانے کا شائد دکھ درد دل بھول جائیں لیکن جو بے حسی اس کی موت پر دیکھنے آئی وہ پھر سوالیہ نشان بن گئی۔۔۔ کہاں گئی اہل آزاد کشمیر کی وہ غیرت نہ قانون ساز اسمبلی میں کوئی آواز اٹھی نہ کسی سیاسی جماعت طلبہ تنظیم یا مذہبی گروہ نے کوئی احتجاج کی کال دی نہ معمولی مفاد کے لیے شٹر ڈاؤن ہڑتال کرنے والے تاجران کا ضمیر جاگا کہ ایک دن آزاد کشمیر میں اس ظلم پر ہڑتال کی جائے اور نہ ہی بیرون ملک بیٹھے ہوئے کشمیر کے ڈائس پورہ کو لب کشائی کرنے کی جرات ہوئی۔۔۔

سیز فائر لائن کے اس پار جہاں عزتوں پر حملوں کی کہانیاں عام ہیں اور ان کی عزتوں کے محافظ جو اس کشمیر سے لوگوں کو ان کی عزتوں کے بچاؤ کے لیے بھارتی فورسز کے مد مقابل میدان میں اتارتے ہیں جہاد کا کھیل کھیلنے والے ان مجاہدین کے پشتی بان بھی بنت حوا کی لٹی عزت پر اپنا رد عمل تک نہ دے سکے کسی کالے کوٹ والے میں بھی اتنی اخلاقی جرات نہ ہوئی کہ وہ سامنے آکر یہ کہہ سکے کہ اس درندے کو ہم پھانسی پر لٹکائے بغیر نہیں رہیں گے۔۔۔میں معافی کا خواستگار ہوں سر عام ہوں۔۔۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی شرم نہیں کہ کنول ہماری نہیں تھی کنول کسی سرمایہ دار کسی سیاست کار کسی سہولت کار کسی مذہبی ٹھیکیدار کسی نام نہاد قوم پرست کی نہ بیٹی تھی نہ بہن تھی وہ بالکل عام تھی بلکہ تھی ہی نہیں اگر ہوتی تو زمین آسمان ہل جاتے ہم نے عالم گیر اسلامی انقلاب لانا ہے ہمارا کام تو سوشلسٹ انقلاب برپا کرنا ہے۔ہم نے تو سرینگر آزاد کروانا ہے ہمیں تو گلگت کے حقوق لینے ہیں معصوم کنول کی عزت لٹ گئی۔۔۔ اور وہ قتل ہو گئی یہ تو نان ایشو ہے۔۔۔ لعنت ہماری سوچ پہ۔۔۔ ہم روز قیامت خدا کو بھی کیا منہ دکھائیں گے اور کنول کو بھی۔۔۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں