اقتدار سنبھالنے سے قبل شاید ہی کوئی ایسا دن گزرا ہو جب چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان عدالتوں کے احترام‘بے بس ولاچار افراد کے حقوق‘قانون کی پاسدار ی اور انصاف کی فراہمی کاتذکرہ نہ کرتے ہوں۔ مسند اقتدار پر فائز ہونے کے بعد عمران خان نے اپنے خطاب کے دوران اُن اقوام کی تباہی کا ہمیشہ تذکرہ کیا جنہوں نے غریب اور امیر کے لئے الگ الگ قانون بنارکھے تھے۔ وزیراعظم عمران خان کا وعدہ تھا وہ مظلوم کی داد رسی کیلئے ہر ممکن کوشش کریں گے۔
ریاست مدینہ کا نعرہ لگنے کے بعد تو عوام بھی مطمئن تھے کہ اُنکا کپتان مظلوموں کوانصاف کی فراہمی کی راہ میں حائل رکاوٹیں ہمیشہ کیلئے ختم کردے گا۔ سانحہ سیالکوٹ کے بعد بھی وزیراعظم نے دوٹوک الفاظ میں اعلان کیا کہ جب تک وہ زندہ ہیں‘سیالکوٹ جیسا واقعہ دوبارہ نہیں ہونے دوں گا۔ انسانی معاشرے میں انصاف کیا جاتا ہے اور کمزوروں کا خیال رکھا جاتا ہے‘تاہم تقریب سے خطاب کے دوران جب وزیراعظم یہ الفاظ دہرا رہے تھے‘
اس سے قبل وزیراعظم اور کابینہ نے ایک بیوہ خاتون اور یتیم بچے سچل کی’دادرسی‘کی درخواست مسترد کردی تھی۔ صحافی مدثر نارو 20اگست2018کو کاغان سے لاپتا ہوئے۔ مدثر نارو کے اہل خانہ نے اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجو ع کیا۔ا سلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے ڈی جی ایف آئی اے‘آئی جی ایف سی خیبر پختونخوا (ساؤتھ)‘آئی جی ایف سی خیبر پختونخوا (نارتھ) ڈی جی پاکستان رینجرز پنجاب اور آئی جی اسلام آباد کو لاپتا صحافی مدثر محمود نارو کے حوالے سے رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی۔تمام اداروں کی جانب سے مؤقف اختیار کیا گیا
لاپتا صحافی کو کسی بھی ادارے کی جانب سے حراست میں لیا گیا نہ ہی وہ کسی ایجنسی کی تحویل میں ہیں۔ وزارت داخلہ کی جانب سے یہ رپورٹ 17مئی2021کو پیش کی گئی۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم کے تحت وزارت داخلہ کی جانب سے خیبر پختونخوا پولیس سے مدثر محمود نارو کی گمشدگی کی تفصیلی رپورٹ حاصل کی گئی جس میں بتایا کیا گیا کہ مدثر محمود نارو اپنی اہلیہ اور بیٹے سچل کے ساتھ کاغان کے دورے پر تھا۔مدثر نارو دریائے کنہار کے کنارے موجود تھا اور چہل قدی کیلئے گیا اور واپس نہیں لوٹا۔
خیبر پختونخوا پولیس کی کوششوں اور مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے16اجلاس کے باوجود مدثر نارو کے بارے میں پتا نہیں لگایا جا سکا۔رپورٹ میں نتیجہ اخذ کیا گیا کہ مدثر نارو کے دریا میں ڈوبنے کا امکان موجود ہے۔تاہم اداروں کی جانب سے بازیابی کی کوششیں جاری ہیں۔معاملے کو جبری گمشدگی کی تحقیقات کیلئے قائم کمیشن کے سامنے 9اپریل2021کوپیش کیا گیا جس میں کمیشن کی جانب سے تمام متعلقہ اداروں کو لاپتا صحافی کے بارے میں جلد رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی گئی۔بالآخر اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے 25نومبر2021کو وزارت داخلہ کو ہدایت کی گئی لاپتا صحافی مدثر نارو کے اہل خانہ کی وفاقی کابینہ سے ملاقات کروائی جائے تاکہ مدثر نارو کے ننھے بیٹے سچل اور بوڑھی ماں کو کچھ اُمید پیداہوکہ حکومت اس کے بیٹے کی تلاش کیلئے کس قدر سنجیدہ ہے۔ شاید اس ملاقات کے بعد ساڑھے چار سالہ یتیم بچے اور زندگی کے آخری ایام گذارتی ضعیف ماں کے زخم کچھ مندمل ہوجائیں۔
وزارت داخلہ کی جانب سے اسلام آبا د ہائی کورٹ کی ہدایت کے مطابق وفاقی کابینہ سے مدثر نارو کے اہلخانہ کی ملاقات کیلئے اجازت طلب کی گئی مگر وفاقی کابینہ کے ارکان کی جانب سے مؤقف اختیار کیا گیا کہ متعلقہ اداروں کی موجود گی کے باوجود معاملات وفاقی کابینہ کو بھیجنے کے عدالتی فیصلے بڑھتے جا رہے ہیں۔ یعنی عدالتیں عوامی مسائل حل کرنے کیلئے وفاقی کابینہ کو ہدایات جاری کررہی ہیں جس سے وزراء کے قیمتی وقت کاضیاع ہور ہاہے‘اس سلسلے کو رکنا چاہئے۔ وفاقی کابینہ کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ کی ہدایات کے خلاف اپیل دائر کرنے کااٹل فیصلہ کیا گیا ہے۔
وفاقی کابینہ نے مظلوم خاندان سے 10منٹ کی ملاقات کے بجائے نئی منطق نکالی کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا حکم آئین کے تحت اختیارات کی تقسیم کے خلاف ہے‘لہٰذا یتیم ’بچے کی فریاد‘ پر عمل نہیں ہوسکتا۔شاید اسلام آباد ہائیکورٹ اور متاثرہ خاندان کو یہ علم نہ ہوکہ اقتدار کی مسند پر براجمان ہونے قبل ووٹ حاصل کرنے کیلئے بلندوبانگ دعوے ضرور کئے جاتے ہیں لیکن اقتدار کی اپنی مصلحتیں ہیں‘ مفادات کی دلدل میں غرق حکمرانوں کو غریب اور مظلوموں کے زخموں پر مرہم رکھنے کیلئے 10منٹ نکالناناممکن ہوجاتا ہے۔لاچار اور مظلوم خاندان کی وزیراعظم اور انکی کابینہ سے التجا ہے‘اگریاست مدینہ کے دعویداراُن سے 10منٹ کی ملاقات نہیں کرسکتے…
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں