منصف اب و ہ خود ہے، مظفر آباد آزاد کشمیر سے حماد گیلانی کی خصوصی تحریر

”دھم“ کی آوازسے اس کی آنکھ کھل گئی۔ اسے لگا جیسے کوئی اس کے گھر میں کودا ہے۔۔۔ رفیق نے ا ٹھنے کی کوشش تو کی مگر نیم دلی سے۔دن بھر لکڑی اور کیلوں کے درمیان نبردآزما رہنے کی وجہ سے رات کے پر سکون سناٹے میں اس کا جسم کسی بھی قسم کی حرکت سے عاری ہی رہتا تھا۔وہ اونگھ سا گیا۔

رفیق کو میں نے ہمیشہ نماز کا پابند پایاتھاچاہے دیر سے سوئے یا جلدی،بارش ہو یا گرمی کی شدت، وہ ہمیشہ وقت پر اٹھتا،تکیے کے نیچے سے اپنی ٹوپی نکال کر اسے جھاڑتا اور سر پر رکھ کر سیدھا مسجدجاتا،نماز فجر ادا کرتا۔۔تھوڑی دیر صف میں بیٹھا رہتا،جیسے کسی گہری سوچ میں گم ہو۔۔جیسے ساری دنیا کے مسئلے اسی نے حل کرنے ہیں۔۔۔

رفیق گھر پہنچ کر بچوں کو جگاتا،ان سے ڈھیر پیار کرتا، رس کے چند ٹکڑے یا رات کی باسی روٹی جس میں سے وہ چن چن کر چیونٹے اتارتا۔۔۔انہیں پیار سے ہاتھ میں پکڑ کر چائے کے ساتھ حلق سے اتار دیتا۔۔چیونٹے جس طرح روٹی سے اتر کر کسی اور جانب اپنی ہی سیدھ میں سفر کر جاتے ہیں ایسے ہی رفیق بھی ناک کی سیدھ میں ایک ڈگر پر چل رہا تھا۔۔اس نے زندگی کی پینتالیس بہاریں ایسے ہی گزار دی تھیں۔۔دن بھر کی محنت سے جو دیہاڑی ملتی وہ اس کی اوراس کے مختصر خاندان کی ضروریات کے لئے کافی تھی۔ کوئی بڑا غم نہ کوئی بڑی خوشی۔ہاں، گاؤں یا رشتہ داروں کے ہاں غم اور خوشی ہر موقع پرضرور موجو دہوتا اور خوب دیکھ بھال کرتا۔۔یہ اس کی کل زندگی تھی،اپنی اس زندگی کی سلطنت کا وہ اکیلا مالک تھا۔اپنی دھن کا پکا۔۔

آج وہ سرے شام گھر پہنچا تو طبیعت بوجھل تھی۔چارپائی کا سہارا لیتے ہی نیند نے اسے اپنی آغوش میں لے لیا اور وہ چند ہی منٹوں میں خوابوں کی دنیا میں تھا۔۔گہری نیند کے خمار میں جب کودنے کی آواز آئی تو اس نے زیادہ توجہ نہ دی۔۔مگر تیز تیز چلنے کی آواز سے وہ پوری طرح جاگ گیا۔۔اسے لگا کوئی اس کے صحن میں چل رہا ہو۔۔خیال آیا چور ہی نہ ہو۔پھر خود ہی اپنے خیال پر مسکرا دیا،بھلا اس کے کچے مکان میں چور کیا ڈھونڈے گااور کیا پائے گا۔۔
قدموں کی چاپ لگاتار آرہی تھی۔۔اسے احساس ہو گیا کہ کوئی ضرور موجود ہے۔۔پہلے تو اس نے سوچا کہ اٹھ کر للکارے،پھر خیال آیا ”اکیلے کیسے مقابلہ کرے گا“اسی دو دلی میں یوں لگا جیسے کوئی دیوار پھلانگ کر نکل گیا ہو۔۔تھوڑی دیر ہی سکون سے گزری تو باہر گلی میں شور سا اٹھا”چور چورپکڑوپکڑو“وہ سامنے گھر میں کود گیا۔۔۔معاملہ رفیق کی سمجھ میں آ چکا تھا۔مگر وہ ایسے ہی بے غرض لیٹا رہا۔۔دروازے پر ہونے والی لگا تار دستک نے رفیق کو اس کے میلے کچیلے بستر کی جنت سے نکال کر دروازے پر کھڑا کر دیا۔۔دو تین سپاہی دندناتے ہوئے اندر گھس آئے”تلاشی لو،تلاشی لو“ کی آواز پر چھوٹے سے گھر کا کونہ کونہ ڈھونڈا جانے لگا۔۔رفیق دم بخود ایک کونے پر کھڑا سب منظر دیکھ رہا تھا۔۔ اس نے کسی سے بات کی نہ ہی اس سے کوئی سوال پوچھا گیا۔۔
چند ہی لمحے میں ایک سپاہی پھنکارتا ہوا وارد ہوا اورایک گٹھڑی تھانیدار کی جانب اچھال دی۔۔تھانیدار نے رفیق کی جانب ایسی نظروں سے دیکھا جیسا اسے ساری دنیا مل گئی ہو۔۔وہ کڑک دار آواز میں بولا”گرفتار کر لو اسے“۔مگر جناب میں تو۔۔۔رفیق گڑبڑا سا گیا۔اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔مگر اسے گرفتار کرنے والے سپاہیوں کو بخوبی پتہ تھا کہ اس کا اصل قصور کیا ہے؟
آدھی رات کی خاموشی میں رفیق کی گرفتاری کا کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی مگر دوسرے روز گاؤں بھر میں اس کے ناکردہ گناہ کا چرچا عام ہو گیا۔۔کسی نے گالی دی تو کسی نے اس کے گھر کی طرف تھوکا۔۔چور،ڈاکو،چرسی،ظالم اور اس طرح کے بے شمار ناموں سے اسے یاد کیا گیا۔۔اس کی بیوی اور بچوں کا دوسروں کے گھر آنا جانا بند کر دیا گیا۔۔اب لاوارث رفیق تھا اور پولیس کا ظلم۔اسے جاتے ہی ایک کوٹھڑی میں دھکیل دیا گیا۔۔وہ آج فجر کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کر سکا اور نہ ہی اپنے بچوں کے سر پر شفقت بھرا ہاتھ پھیر سکا۔۔صبح کی ہلکی روشنی نے ایک نئی نوعیت کے عذابوں کا سلسلہ اس پر مسلط کر دیا۔۔”ساتھی کا نام کیاہے؟اکیلے ہی کاروائی کی یا ساتھ کوئی ہے؟“تفتیشی اہلکار کے ہر سوا ل کا اس کے پاس ایک ہی جواب تھا ”جناب میں کچھ نہیں جانتا،چور تو میرے گھر مال پھینک کر فرار ہو گیا تھا“
وہ بے بس تھا۔وہ چیخ چیخ کر اپنی بے گناہی کا رونا روتا رہا۔مگر تین دن میں اس کا جسم اتنا کچلا گا کی انا اتنی ذلیل کی گئی کہ اسے خود سے نفرت ہو گئی،اسے اپنے وجود سے گھن آنے لگی،اسے ہر نظر آنے والا انسان،انسان نہیں جانور لگنے لگا۔۔جب وہ مردار ہونے کے قریب پہنچ گیا۔۔۔تو اس کے بے جان جسم کو تھانے کے باہر پھینک دیا گیا۔۔کہ اصل چور کا تو پچھلی رات ہی سراغ مل چکا تھا۔۔
وہ اپنی لیر لیر روح اور داغ داغ جسم کو گھسیٹتا گھر پہنچا۔۔جانے کتنے دن بے جان چارپائی پر پڑا رہا۔۔پورا گاؤں اسے دیکھنے آتا،اس کی بے گناہی کا ذکر کرتا،، اسے دی جانے والی گالیوں پر شرمندہ شرمندہ اٹھ کر چلا جاتا۔۔مگر اسے بھلا اب ان باتوں سے کیا لینا دینا تھا۔۔اس کی زندگی بدل چکی تھی۔۔
دن، مہینے اور سال بھاگتے جا رہے تھے۔اور وہ جرائم کی دنیا کا بے تاج بادشاہ بنتا جا رہا تھا۔۔سارا گاؤں اس کے خوف سے کانپنے لگا تھا۔۔اور کوئی بھی اس کے خلاف،بیان دے کر خطرہ مول نہیں لیتا تھا۔پولیس اپنا حصہ لے کو اس کی پشت پناہی کر تی اور اس کی روح کسی ایسی ہی گٹھڑی کے انتظار میں تھی۔۔جو اس کے گھر میں پھینکی جائے اور صبح وہ بے گناہ ثابت ہو۔۔
قابل غور بات یہ ہے کہ میں کسی دور افتادہ گاؤں کے باسیوں کی کہانی کے کردار پر قلم کشائی نہیں کر رہا،ایسی بے شمار کہانیاں ملک کے دارلحکومت سے لے کر ہر بڑے شہر میں موجود ہیں۔جہاں جو غربت سے زیادہ غریب،محرومی سے زیادہ محروم اور بھوک سے زیادہ بھوکے ہیں،وہی لوگ انصاف کو ترستے ہیں اورامیروں کی خواہشوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔یہ وہ لوگ ہیں جن کی غربت ہی ان کا اصل جرم ہے۔ان کا پاکستان میں وسائل اور انصاف پر اتنا ہی حق ہے جتناکسی امیر کا۔لیکن یہ لوگ صرف طلبگار ہیں۔۔وہ طلبگار جن کی جھولی ہمیشہ خالی ہی رہتی ہے۔۔ان کے بوسیدہ کپڑے، جھریوں میں لپٹے چہرے، خون کا فوارہ بنی ہوئی انگلیاں اور تو کی بدبو سے بھرا جسم ان کی بد قسمتی ہے۔ ان کے پھیلے ہاتھ،خالی اور رسوا نظریں ان جرائم کا بھی اقرار کر لیتی ہیں جن کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتے۔۔اور جب کسی کی روح اسے ملامت کرتی ہے تو وہ اپنی انا کی تسکین کے لئے غربت کے کوہ گراں سے نکل کر جرائم کی حقیقی دنیا میں قدم رکھ دیتا ہے۔۔
جب میں نے یہ تحریر مکمل کی تو سرگوشی میرے ہونٹوں پر پھسل گئی!
مجھے خوف آتا ہے رب کے غضب سے کہ یہ ہم لوگوں کا مقدر ٹھہرے گا۔
کیوں کہ یہاں انصاف کسی چوکھٹ پر پڑے کوڑا دان سے بھی بدتر
حالت میں ہے اور مایوسی کے اندھیرے میں کروڑوں انسان امراء کے محلوں کی چکا چوند روشنیوں سے پرے لاوارث پڑے ہیں۔۔۔۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں