مزار شریف بھی طالبان کے کنٹرول میں آگیا، ایک ہی دن میں دوسری بڑی کامیابی کا دعویٰ

کابل(پی این آئی)افغانستان میں طالبان نے بلخ صوبے کے دارالحکومت مزار شریف پر بھی قبضہ کر لیا ہے۔سنیچر کو ایسوسی ایٹڈ پریس نے افغان پارلیمان کے رکن کے حوالے سے بتایا ہے کہ طالبان نے ایک بڑے حملے کے بعد مزار شریف پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔مزار شریف کے ایک شہری عتیق اللہ نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’وہ (طالبان) اپنے موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں پر شہر کا گشت کر رہے ہیں اور ہوائی فائرنگ کر کے فتح کا جشن منا رہے ہیں۔‘اس سے قبل طالبان نے دو مزید صوبوں پکتیا اور پکتیکا کے دارالحکومتوں پر قبضہ کر لیا ہے اور ایسوسی ایٹڈ پریس نے مقامی ممبر پارلیمنٹ کے حوالے سے بتایا ہے کہ طالبان اب دارالحکومت کابل سے صرف 11 کلومیٹر (سات میل) دور رہ گئے ہیں۔ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق طالبان تین ہفتے سے بھی کم عرصے میں شمالی، مغربی اور جنوبی افغانستان کے زیادہ تر علاقوں پر کنٹرول حاصل کر چکے ہیں۔رکن پارلیمان خالد اسد کے مطابق طالبان کابل کے جنوب میں لوگر صوبے پر مکمل قبضہ کر چکے ہیں اور انہوں نے مقامی حکام کو گرفتار کر لیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ طالبان کابل سے سات میل دور چار اسیاب ضلع تک پہنچ چکے ہیں۔ایک اور رکن پارلیمان ہدا احمدی کا کہنا تھا کہ طالبان نے پاکستان کی سرحد کے ساتھ لگنے والے پکتیکا صوبے پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔ان کے مطابق سنیچر کی صبح شارانا میں لڑائی شروع ہوئی لیکن مقامی معززین کی طرف سے مذاکرات کے لیے مداخلت کرنے پر بند ہوگئی۔ انہوں نے کہا کہ گورنر اور دیگر حکام نے ہتھیار ڈال دیے اور کابل روانہ ہوگئے۔ہمسایہ صوبے پکتیا سے رکن پارلیمان سید حسن گردیزی کا کہنا تھا کہ طالبان نے صوبائی دارالحکومت گردیز کے زیادہ تر حصے پر قابو پا لیا ہے، لیکن حکومتی فورسز کے ساتھ لڑائی جا رہی ہے۔تاہم طالبان کا کہنا ہے کہ وہ شہر پر قبضہ کر چکے ہیں۔ اس سے قبل افغان حکومت کے ایک اہلکار نے خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا ہے کہ طالبان نے کابل کے جنوب میں ایک شہر پر قبضہ کر لیا ہے جبکہ ملک کے ایک اور اہم شہر مزار شریف پر قبضے کے لیے کثیرالجہتی حملہ کیا ہے۔اے پی کے مطابق مزار شریف شمالی افغانستان کا اہم شہر ہے جس کا تحفظ طاقتور وار لارڈز کر رہے ہیں۔شمالی بلخ صوبے کے گورنر کے ترجمان منیر احمد فرہاد کا کہنا ہے کہ سنیچر کی صبح طالبان نے شہر پر کئی اطراف سے حملہ کیا ہے، تاہم فوری طور پر جانی نقصان کی اطلاعات سامنے نہیں آئیں۔خیال رہے کہ افغانستان کے صدر اشرف غنی نے بدھ کو مزار شریف کا دورہ کیا تھا جہاں انہوں نے شہر کے تحفظ کے حوالے سے حکومت کی اتحادی ملیشیا کے کمانڈروں سے ملاقات کی۔اے پی کے مطابق طالبان نے قندھار میں ریڈیو سٹیشن کے علاوہ سنیچر کو جنوبی افغانستان کے بیشتر علاقوں پر قبضہ کیا، ان تند و تیز حملوں نے ان خدشات کو بڑھا دیا ہے کہ طالبان تین ہفتوں سے بھی کم وقت میں اور امریکی فوجیوں کے مکمل انخلا سے قبل پورے ملک پر قبضہ کر سکتے ہیں۔غیر ملکی فوجوں کے انخلا کے بعد امریکہ کی جانب سے اربوں ڈالر خرچ کیے جانے کے باوجود افغانستان کی اپنی فوج کے پیچھے ہٹ جانے سے یہ خدشات بڑھے ہیں کہ طالبان پھر سے اقتدار میں آ سکتے ہیں یا پھر ملک میں خانہ جنگی چھڑ سکتی ہے۔سنیچر کو امریکی فوج کے تازہ دستے امریکی سفارت کاروں اور افغان اتحادیوں کو ملک سے بحفاظت نکالنے کے لیے کابل پہنچ گئے۔صدر بائیڈن کی جانب سے آخری وقت میں ہزاروں فوجی دوبارہ افغانستان بھیجنے کا فیصلہ ملک میں سکیورٹی کی مخدوش صورتحال کو واضح کرتا ہے۔ مذکوروہ فیصلے نے جو بائیڈن کی جانب سے 31 اگست تک تمام امریکی فوجیوں کو افغانستان سے نکالنے کے فیصلے پر بھی سوالات اٹھا دیے ہیں۔امریکی سینڑل کمانڈ کے ترجمان نیوی کیپٹن ویلیم اوربن کا کہنا تھا کہ جمعے کو امریکی میرینز کے اولین دستے کے کابل پہنچنے کے بعد سنیچر کو مزید میرینز افغانستان پہنچ گئے۔ تاہم انہوں نے کابل پہنچنے والے فوجیوں کی تعداد بتانے سے انکار کیا۔پینٹاگان نے جمعے کو اعلان کیا تھا کہ آرمی کے جوانوں اور میرینز کے دو بٹالین پر مشتمل تین ہزار فوجی اختتام ہفتہ تک کابل پہنچ جائیں گے۔حکام کا اصرار ہے کہ افغانستان پہنچنے والے فوجیوں کا مشن صرف سفارتی عملے اور افغان اتحادیوں کا محفوظ انخلا ہے۔ ان کو توقع ہے یہ مشن اس ماہ کے آخر تک مکمل ہو جائے گا۔تاہم اگر اس وقت تک کابل پر طالبان کے قبضے کی وجہ سے سفارت خانے کو خطرہ ہوا تو یہ دستے افغانستان میں مزید قیام کرسکتے ہیں۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں