گزشتہ روز فائرنگ کا نشانہ بننے والے مبشر کھوکھر اور پی ٹی آئی رہنما ملک اسد کھوکھر پر سنگین الزامات

لاہور(پی این آئی)وزیراعلیٰ پنجاب کی موجودگی میں نومنتخب صوبائی وزیرملک اسدکھوکھر کے بیٹے کی دعوت ولیمہ کی تقریب میں ہونے والی فائرنگ نے ملکی سیاسی نظام کا بھانڈاپھوڑنے اور لاہور پولیس کے دعوؤں کی قلعی کھولنےکےساتھ ساتھ کئی سوالیہ نشان بھی کھڑے کردیئےہیں،چند ماہ قبل لاہورپولیس کی جانب سے سیکیورٹی ایجنسیوں کی مدد سے لاہور کے238 بدمعاشوں ، قبضہ مافیا اور بھتہ خوروں کی فہرست تیار کی گئی تھی جس میں نومنتخب وزیر ملک اسد کھوکھر اور ان کے بھائی مقتول ملک مبشر کھوکھر کا نہ صرف نام شامل تھا بلکہ ان کے جرائم کی لمبی اور طویل داستان بھی بیان کی گئی تھی۔تفصیلات کے مطابق ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی(ڈی ایچ اے)لاہور میں شادی کی تقریب میں وزیراعلیٰ پنجاب سمیت اہم شخصیات کی موجودگی میں فائرنگ کے افسوسناک واقعہ نے پولیس کے سیکیورٹی نظام اور دعوؤں کو بے نقاب کردیا ہے،وزیراعلیٰ سمیت اہم شخصیات کی موجودگی میں فائرنگ کا واقعہ جتنا تشویشناک ہے اس سے کہیں زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ رواں سال جنوری کے مہینے میں پولیس نے لاہور کے 238 بدمعاشوں ، قبضہ مافیا اور بھتہ خوروں کی فہرست تیارکرکے ان کے خلاف کریک ڈاؤن کا اعلان کیا تھا، اس فہرست میں نومنتخب وزیر ملک اسد کھوکھر اور مقتول ملک مبشر کھوکھر کا نام بھی شامل تھا ،یہ کیسے ممکن ہے کہ ملکی سیکیورٹی ادارے اور پولیس جس شخص کو بدمعاش اور قبضہ مافیا قرار دیتے ہوئے اس کا نام ’بستہ ب‘ کی فہرست میں شامل کرے وہ شخص وزیر بن جائے ؟سوال پیدا ہوتا ہے کہ وزیر بننے سے قبل پولیس نے اپنی شائع کردہ فہرست کے مطابق ملک اسد کھوکھر اور ملک مبشر کھوکھر کے خلاف کیا کارروائی کی ؟ جبکہ وزیراعلیٰ پنجاب نےایک ایسےشخص کوکابینہ کاحصہ کیسے بنا لیا جس کانام نہ صرف ’بستہ ب‘میں شامل ہے بلکہ اس کے جرائم کی فہرست بھی شائع کی گئی ہے۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں