اسلام آباد(پی این آئی)وزیر اعظم عمران خان نے کہاہے کہ بدقسمتی سے افغانستان میں غلط تاثر موجود ہے کہ پاکستان کو عسکری ادار ے کنٹرول کنٹرول کرتے ہیں جو بد قسمتی سے سراسر بھارت کا پھیلایا ہوا پراپیگنڈا ہے ، میرا ہمیشہ سے یہی موقف رہا ہے کہ افغان مسئلے کا حل عسکری نہیں بلکہ سیاسی طریقے سے ممکن ہے ، پچھلے پندرہ سالوں سے پارٹی سربراہ کی حیثیت سے اور پچھلے تین سالوں سے حکومت میں رہ کر میں اپنے موقف پر قائم ہوں اور حکومت کو اس موقف پر عسکری اداروں کی مکمل حمایت حاصل ہے ، پاکستان ہمیشہ سے ہندوستان کے ساتھ امن کا خواہاں ہے مگر ہندوستان امن نہیں چاہتا کیونکہ وہ اس وقت آر ایس ایس کےنظریےکےزیرِ تسلط ہے،جب تک بھارت اپنے 5 اگست کےاقدام کو واپس نہیں لیتا تب تک بھارت سے بات چیت اور پاکستان اس کے سہ فریقی افغان امن عمل میں شمولیت کو قبول کرنا ممکن نہیں ۔وزیراعظم آفس سے جاری اعلامیہ کے مطابق وزیر اعظم عمران خان سے پاک افغان یوتھ فورم (پی اے وائی ایف )کے وفد نے ملاقات کی ۔ملاقات میں وفاقی وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری، وزیرِ مملکت فرخ حبیب، معاونِ خصوصی ڈاکٹر شہباز گل، سینیٹر فیصل جاوید اور اعلی حکام کے علاوہ افغانستان سے تعلق رکھنے والے صحافیوں و ایڈیٹروں، فلمسازوں، کاروباری شخصیات و صنعت کاروں، دفاعی تجزیہ نگاروں نے شرکت کی۔ملاقات کا مقصد پاک افغان فورم کے اراکین کے پاکستان افغان تعلقات، پاکستان کے افغانستان میں پائیدار امن کیلئے اٹھائے گئے اقدامات اور خطے کی مجموعی صورتحال کے حوالے سے پائف اراکین کے سوالات پر حکومت کا مقف واضح کرنا اور نوجوانوں کو پاکستان کی افغان امن عمل کیلئے کوششوں کے بارے آگاہی دینا تھا. ملاقات میں وزیرِ اعظم نے پائف کے اراکین کے سوالات کے جوابات دیئے ۔افغانستان امن عمل میں ہندوستان اور پاکستان کے اشتراک کے متعلق سوال کے جواب میں وزیرِ اعظم نے کہا کہ بھارت نے 5 اگست 2019 میں اقوامِ متحدہ کی قرار دادوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے یکطرفہ طور پر کشمیر کی حیثیت کو تبدیل کیا ۔ نہ صرف یہ بلکہ کشمیریوں پر ظلم و بربریت کے نئے باب کا اغاز کیا ۔پاکستان 1948 سے کشمیریوں کے حقوق کے تحفط کیلئے عالمی سطح پر اپنی آواز بلند کر رہا ہے،جب تک بھارت اپنے 5 اگست کے اقدام کو واپس نہیں لیتا اور کشمیر کی خصوصی حیثیت بحال نہیں کرتا جس کے تحت کشمیری جب تک اقوامِ متحدہ کے تفویض کردہ حقِ خود ارادیت کا اظہار نہیں کرتے تب تک کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے، تب تک بھارت سے بات چیت اور پاکستان اس کے سہ فریقی افغان امن عمل میں شمولیت کو قبول کرنا ممکن نہیں ۔وزیرِ اعظم نے مزید کہا کہ انہوں نے حال ہی میں افغانستان کا دورہ کیا اور صدر اشرف غنی سے انکے اچھے تعلقات ہیں لیکن حالیہ بیانات میں افغان رہنماں نے پاکستان کو افغان بحران کا ذمہ دار ٹھہرایا جو کہ انتہائی افسوس کی بات ہے کیونکہ پاکستان نے پہلے امریکہ اور پھر افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کیلئے طالبان کو قائل کرنے کے لئے سخت جدوجہد کی ہے۔ خطے کا کوئی اور ملک پاکستان کی کوششوں سے برابری کا دعویدار نہیں ہو سکتا. جس کی تائید امریکی نمائندہِ خصوصی زالمے خلیل زاد نے بھی کی ہے ۔افغانستان میں کھیلوں کے فروغ، خاص طور پر کرکٹ کے حوالے سے سوال کے جواب میں وزیر اعظم نے کہا کہ کرکٹ کی تاریخ میں کسی دوسرے ملک نے اتنے کم وقت میں ترقی نہیں کی جتنی افغانستان نے کی. جہاں افغان ٹیم اب ہے اس مقام تک پہنچنے میں دوسرے ممالک نے ستر سال لگائے، جسکی بڑی وجہ افغانی مہاجرین کا پاکستان میں قائم کیمپوں میں کرکٹ کا سیکھنا ہے جو قابل تعریف ہے۔پاکستان میں سول اور عسکری اداروں کے افغانستان امن عمل میں ایک پیج پر ہونے کے سوال کے جواب میں وزیرِ اعظم نے کہا کہ بدقسمتی سے افغانستان میں غلط تاثر موجود ہے کہ پاکستان کو عسکری ادار ے کنٹرول کنٹرول کرتے ہیں جو بد قسمتی سے سراسر بھارت کا پھیلایا ہوا پراپیگنڈا ہے،میری حکومت کی خارجہ پالیسی گذشتہ پچیس سالوں سے میری پارٹی کے منشور کا حصہ رہی ہے،میرا ہمیشہ سے یہی موقف رہا ہے کہ افغان مسئلے کا حل عسکری نہیں بلکہ سیاسی طریقے سے ممکن ہے، پچھلے پندرہ سالوں سے پارٹی سربراہ کی حیثیت سے اور پچھلے تین سالوں سے حکومت میں رہ کر میں اپنے موقف پر قائم ہوں اور حکومت کو اس موقف پر عسکری اداروں کی مکمل حمایت حاصل ہے ۔انہوں نے کہاکہ پاکستان ہمیشہ سے ہندوستان کے ساتھ امن کا خواہاں ہے مگر ہندوستان امن نہیں چاہتا کیونکہ وہ اس وقت آر ایس ایس کے نظریے کے ریرِ تسلط ہے جو نہ صرف کشمیر بلکہ ہندوستان میں مسلمانوں، دیگر مذاہب کے ماننے والوں اور اقلیتوں کے ساتھ برا سلوک کر رہے ہیں یہی محرکات ہندوستان کے ساتھ امن میں بڑی روکاوٹ ہیں۔وزیراعظم نے کہاکہ پاکستان دنیا میں کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ افغانستان میں امن چاہتا ہے کیونکہ اگر افغانستان میں امن ہوتا ہے تو پاکستان کو وسط ایشیائی ممالک تک رسائی حاصل ہوجائے گی،ہم پہلے ہی ازبکستان کے ساتھ مزار شریف ، پشاور ریلوے لائن کے لئے معاہدہ کر چکے ہیں جو افغانستان کے راستے پاکستان پہنچے گا، ہماری مستقبل کی تمام معاشی حکمت عملیوں کا انحصار افغانستان میں امن پر ہے، پاکستانی عوام افغانیوں کو پڑوسیوں کی بجائے اپنا بھائی سمجھتے ہیں۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں