اسلام آباد (تحریر:شکیل احمد خاں میو)یہ بات آپ کے لیے یقیناََ باعث حیرت ہوگی کہ اگر ہمارے اپنے ملک کی کرنسی میں کسی غیر ملک (برطانیہ)کی دلچسپی ہماری نسبت زیادہ ہو۔جی ہاں ہم بات کررہے ہیں۔۔ پاکستان (اوور پرنٹ Overprint) overprint کرنسی نوٹس کی جو 1947 سے 1948 تک پاکستان میں رائج رہے۔ پس منظر میں وجہ بڑی دلچسپ ہے کہ پاکستان جب دنیا کے
نقشے پر ایک نوزائیدہ ریاست کے طور پر ابھرا۔تو پاکستان کے پاس فوری طور اقتصادی و معاشی نظام کی کوئی اساس یا اسے چلانے کا کوئی انتظامی ڈھانچہ موجود نہیں تھا۔ جس کے لیے پاکستان کو بڑی مشکلات سے دوچاد ہونا پڑا تھا۔ لہذا مجبوری یا موجودہ نوعیت کے تحت پاکستان کو حکومت برطانیہ سے ایک معاہدے کے تحت وہ برطانوی کرنسی نوٹس جو برصغیر میں رائج تھے پاکستان میں رائج کرنے پڑے۔ جس میں ایک معمولی سی ترمیم کر کے ان کرنسی نوٹوں پر (حکومت پاکستان) لکھا گیا۔ جس کی وجہ سے وہ بعد ازاں (اوور پرنٹ Overprint) نوٹس کے نام سے معروف ہو۔یہ کرنسی نوٹس ایک محدود تعداد میں چھاپے گئے۔ تاہم 1948 میں ہی پاکستان نے وقت اور حالات کی نزاکت کو محسوس کرتے ہوۓ اپنے ذاتی کرنسی نوٹس اپنے ذاتی اقتصادی نظام کو مربوط کرکے چھپواۓ۔ جن کرنسی نوٹوں کو (فرسٹ ایشو) کہا جاتا ہے۔ اب بات کرلیتے ہیں برطانوی حکومت کی ان کرنسی نوٹوں میں دلچسپی کے حوالے سےیہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ملکوں کے عروج وزوال کے پس منظر میں اُس ملک کی اپنی تاریخ سے دلچسپی یا قدردانی جیسے عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ اپنی تاریخ کو محفوظ کرنے, (Preserve کرنے) اس کی قدر کرنے, اور اس کی باقیات کو سنبھالنے کے حوالے سے جتنا متحرک یورپ کا ملک برطانیہ ہے اتنا شاید ہی دنیا کا کوئی ملک ہو۔برطانیہ نے جہاں ایک طرف پوری دنیا کے بیشتر حصے پر اپنی سلطنت کا پرچم لہرایا۔
اور دنیا کے دوتہائی حصے میں اپنی بادشاہت کا لوہا منوایا۔۔ وہیں پر پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا میں کالونیل سسٹم (Colonial System)کے خاتمے کے بعد اپنی ہزاروں سال پر محیط حکومت وسلطنت کی باقیات ,ثبوت اور نشانیوں کو دنیا کے کونے کونے سے سمیٹ کر اپنے قومی میوزیمز کا حصہ بنایا تاکہ آنے والی نسلیں کو برطانیہ کے نام سے جڑا (The Great Britain ) کے ٹائٹل کو ثابت کیا جاسکے۔ یہ بھی ایک المیہ ہے پاکستان کو اپنے تاریخی ورثے, تہذیب وثقافت کو روشناس کروانے
اور اسے محفوظ کروانے کے حوالے جو پیش رفت اور اقدامات کرنے چاہیے تھے وہ نہ کیے جا سکے۔اس عدم توجہی اور بے قدری کے سبب پاکستان اپنی بہت سی تاریخی نوادرات کو اپنے ہاتھوں سے گنوا چکاہے۔ کچھ یہی حال پاکستان کے مذکورہ تاریخی کرنسی نوٹوں کے ساتھ ہوا۔ برطانیہ کی ان کرنسی نوٹوں میں گہری دلچسپی اور وابستگی کی ایک دو بڑی وجوہات ہیں ایک تو برطانیہ
اپنی تاریخ سے جڑی ہر چیز کو ہمیشہ سے اہمیت اور قدر دیتا چلا آیا ہے۔دوسری ایک اور اہم وجہ یہ تھی پاکستان واحد ایک ایسا تاریخی اور جغرافیائی اہمیت کا حامل اور دولت مشترکہ (Commonwealth ) میں شامل ملک تھا جو مشترکہ ہندوستان سے علیحدہ ہو کر برطانوی تسلط سے آذاد ہوا تھا۔ 1947 سے پہلے پاکستان کا بطور ایک خودمختار ریاست کے کوئی وجود نہیں تھا۔ اس لیے برطانوی راج کے دوران اور تاج برطانیہ کے ماتحتی میں پاکستان کے حوالے سے کوئی بھی کرنسی نوٹ یا سکہ
ایسا نہیں تھا جس سے پاکستان کی بطور کالونی کا ثبوت ملے۔ کیونکہ برطانیہ کے زیر انتظام ہر کالونی میں رائج سکے نوٹوں پر برطانیہ کی حکمرانی کی گہری چھاپ کے واضح اور انمٹ نقوش ثبت ہوۓ۔ جو ماضی کی داستان لیے ہوۓ تھے۔ برطانوی کالونیل کرنسی نوٹوں پر نوٹوں پر پاکستان کا نام تاریخ کی اہم دستاویز لیے ہوۓ ہیں۔ جو برطانیہ کے لیے بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ برطانیہ نے یہ
کرنسی نوٹس پاکستان سے ایک بڑی تعداد میں اور بڑی غیرمعمولی قیمت پر خریدے۔ اور تاحال بھی برطانیہ میں ان کرنسی نوٹوں کی قدرومنزلت میں کمی نہیں آئی۔ کیونکہ برطانیہ نے ان کرنسی نوٹوں کو خرید کر دنیا بھر کے میوزیمز میں بطور شہادت اور ثبوت کے ڈسپلے کیا۔تاکہ آنے والی نسلوں کو بھی یہ ازبر کروایا
جاسکے کہ پاکستان بھی برطانیہ کے زیر تسلط رہنے والا ملک تھا۔ واضح رہے پاکستان میں رائج ہونے والے overprint کرنسی نوٹوں کا صرف دو یا تین فیصد ہی پاکستان میں موجود ہے باقی برطانیہ اور یورپین ممالک میں موجود ہیں۔ ان میں سے بہت سارے کرنسی نوٹس کی قیمت لاکھوں میں ہے۔ نیچے ان کرنسی نوٹوں کی تصاویر دی گئی ہیں۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں