کراچی(آن لائن)سندھ حکومت نے آئین کے آرٹیکل 154 کی شق سات کے تحت سی سی آئی کی جانب سے منظور کردہ 2017 کی مردم شماری کے نتائج معاملے پرپارلیمنٹ کوریفرنس بھیج دیا ہے،سندھ حکومت کے ترجمان مرتضی وہاب کا کہنا ہے کہ مردم شماری پر وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ پہلے ہی اپنے تحفظات ظاہرکرچکے ہیں، مگر اس کے باوجود 2017 کے نتائج کی منظوری دی گئی۔ وزیراعلیٰ سندھ سی سی آئی کی جانب سے منظور کردہ 2017 کی مردم شماری کے نتائج سے مطمئن نہیں ہیں،اب سندھ حکومت آئین کے آرٹیکل 154 کی شق سات کے تحت اس معاملے کو پارلیمان میں اٹھائے گی۔چیئرمین سینٹ اوراسپیکرقومی اسمبلی کوبھجوائے گئے ریفرنس میں وزیراعلی سندھ سید مرادعلی شاہ کا کہنا ہے کہ مردم شماری کے نتائج کے معاملے پر سی سی آئی میں ووٹنگ کے لئے مروجہ قواعد پر عمل نہیں کیاگیا،ووٹنگ کے لئے غلط طریقہ کار اختیار کیاگیاہے، تحفظات ظاہر کئے جانے کے باوجود ، سی سی آئی نے مردم شماری کے نتائج کی منظوری دی ہے۔2017 کی مردم شماری میں سندھ کی آبادی کو کم دکھایا گیا ہے، جسے سندھ حکومت نہیں مانتی،سندھ کی کل آبادی 62 ملین یعنی چھ کروڑ 20 لاکھ ہے، مگر 2017 کی مرد شماری میں سندھ کی آبادی ایک کروڑ 50 لاکھ کم یعنی چار کروڑ 70 لاکھ دکھائی گئی ہے،وزیراعلی سندھ کا کہنا ہے کہ میں نے سی سی آئی کے دیگر ممبران کو یاد دلایا تھا کہ دوسرے صوبوں سے آنے والے تارکین وطن کو دھوکے سے سندھ کے بجائے ان کے اصل صوبوں میں ہی شمار کیا گیا ہے۔سندھ حکومت کی جانب سے پارلیمنٹ کوبھجوائے گئے ریفرنس میں کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم پاکستان عمران خان کو لکھے گئے ایک خط میں وفاقی کابینہ کی جانب سے ملک میں تین سال قبل ہونے والی مردم شماری کے نتائج کو منظور کئے جانے پر اعتراض اٹھایا گیا تھا اور وزیر اعظم عمران خان سے درخواست کی تھی کہ وہ اس معاملے میں مداخلت کرتے ہوئے صوبوں کے تحفظات دور کریں اور اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو وفاقی کابینہ کی جانب سے 2017 کی مردم شماری سے متعلق کئے گئے فیصلوں کو کالعدم یا باطل تسلیم کیا جائے گا۔ریفرنس میں مزید کہا گیا ہے کہ سینیٹ میں تمام فریقین نے پانچ فیصد آبادی کے بلاکس میں دوبارہ گنتی اور مردم شماری کے اعداد و شمار کی اصلاح کے معاہدے پر دستخط کیے تھے،موجودہ حکومت کا اس معاہدے پر عمل درآمد کرانے کے بجائے تازہ مردم شماری کرانے کا فیصلہ ایک اورچال ہے کابینہ نے مردم شماری کے معاملے پر سینیٹ میں پارلیمانی لیڈروں کے معاہدے کو نظر انداز کیا،معاہدے کے تحت مختلف آبادیوں کے پانچ فیصد میں دوبارہ مردم شماری پر اتفاق کیا گیا تھا سندھ میں کی جانے والی مردم شماری نقائص سے بھرپور تھی۔ریفرنس میں کہا گیا ہے کہ سب نے ملکی آئین میں ترمیم کرکے صرف الیکشن کیلئے مردم شماری نتائج تسلیم کئے تھے، پہلے ایک فیصد کو چیک کروانے کی بات کی گئی پھر پانچ فیصد پر اتفاق ہوا تھا اور 24 نومبر 2017 کو یہ فیصلہ ہوا، مارچ 2018 میں سی سی آئی اجلاس ہوا، 27 مئی کو آخری اجلاس ہوا اس میں کہا گیا کہ ہم سے پانچ فیصد نہیں ہوسکتا، نئی پارلیمنٹ پر اتفاق ہوا، یہ حکومت آئی تو تاخیر سے چار اجلاسز ہوئے، ان میں مرد شماری کا ذکر نہیں تھا،پھر کابینہ کمیٹی بنادی گئی ہے،سندھ کی جانب سے کہا گیا تھا کہ کمیٹی صوبوں سے رائے ضرور لے مگرسندھ سے بات ہی نہیں کی گئی، کابینہ کی کمیٹی کے بعد کابینہ نے بھی منتازعہ نتائج کی منظوری دے دی اور صوبوں سے مشاورت نہیں کی ، اس مردم شماری کے فیصلے کو پارلیمنٹ میں نہیں لایا گیا، سی سی آئی کے اجلاس میں جو طے ہوا اس پر عمل نہیں کیا گی ااور سی سی آئی احکامات کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا گیا جو سندھ کے ساتھ شدید ناانصافی ہے، فیصلے کے خلاف سندھ حکومت پارلیمنٹ میں ریفرنس بھیج رہی ہے اور سندھ کابینہ نے اس ریفرنس کی منظوری دی ہے وفاقی حکومت نے غیرقانونی اور غیرمنصفانہ طریقے سے مردم شماری کے متنازع نتائج کو منظور کیا،سندھ حکومت کی مخالفت کے باوجود مردم شماری کے متنازعہ نتائج کی منظوری کے معاملے کو آرٹیکل 154 کے تحت پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں لایا جائے۔۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں