کنٹرول لائن پر جنگ بندی کے بعد کیا ہو گا؟سینئر تجزیہ کار ارشاد محمود کا کالم، بشکریہ روزنامہ 92

24 فروری کو پاکستان اور بھارت نے لائن آف کنٹرول (ایل او سی)پر جنگ بندی پر سختی سے عمل درآمد کرنے پر اتفاق کا اعلان کرکے ایک عالم کو ورطہ حیرت میں ڈالا۔ کنٹرول لائن کے دونوں اطراف ، طاقت کے عالمی مراکز اور اقوام متحدہ نے اس اقدام کا بھرپورخیر مقدم کیا ۔ اس پیشرفت سے یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ

دونوں ممالک میں حالت جنگ کی مسلسل کیفیت برقراررکھنا کسی کے مفاد میں نہیں۔امید ہے کہ یہ محض ایک وقتی ٹیکٹیکل( شاطرانہ چال ) نہیں بلکہ اس کے پس منظر میں طویل المعیاد اسٹرٹیجک فکر کارفرماہے، جو بتدریج نہ صرف دونوں ممالک کے منجمند سفارتی اورتجارتی تعلقات کی بحالی اور سب سے بڑھ کر مسئلہ کشمیر کے مستقل حل کے لیے جامع مذاکرات کی بحالی کی راہ ہموار کرے گی۔5 اگست 2019 ء سے مقبوضہ کشمیر اور لائن آف کنٹرول کے اطراف آباد شہریوں کی زندگی جہنم زار بن چکی ہے۔اگرچہ ایل او سی کے آر پار فائرنگ کرنا کوئی نیا یا غیر معمولی واقعہ نہیں، تاہم کوروناوائرس کی مہلک وبا نے مقامی لوگوں کو دوہرے خطرہ سے دوچار کیا۔ متعدد افراد اپنی زندگی سے محض اس وجہ سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیںکہ وہ علاج کے لئے گھروں سے باہر جانے سے قاصر تھے۔ سرکاری ذرائع کے مطابق آزاد جموں و کشمیر میں گذشتہ چار سالوں میں بھارتی فوجی چوکیوں سے فائرنگ کی وجہ سے 49 خواتین اور 26 بچے موت کے منہ میں چلے گئے۔ کشمیری رہنماؤں بشمول میر واعظ عمر فاروق، محبوبہ مفتی اور فاروق عبد اللہ نے جنگی بندی کے اعلان کو خاص طور پر سراہا۔ اگرچہ سازشی تھیوریوں کے ماہرین جنگی بندی کے اعلان کو ایک بڑے گیم پلان کا ایک حصہ قرار دیتے ہیں، جو تنازعہ کشمیر کو بغیر کسی سمجھوتہ کے دفن کرسکتا ہے ۔ بعض

افراد اس اعلان کو 5 اگست 2019 ء کے بھارتی اقدام کو تسلیم کرنے کے مترادف بھی قراردیتے ہیں۔سری نگر میں مقیم سینئر صحافی یوسف جمیل نے جنگ بندی کے اعلان کے اگلے ہی دن ٹویٹ کیا: ”آج میں نے بہت سارے لوگوں کے ساتھ انٹرویو کیا تھا۔ ان میں سے اکثر نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ کہیں کنٹرول لائن کو مستقل سرحد نہ بنادیا جائے ”۔یہ ٹویٹ اشارہ کرتا ہے کہ معاشرے کا ایک اہم طبقہ اپنے مستقبل اور آنے والے مہینوں میں ممکنہ سیاسی پیشرفت میں کشمیری قیادت کے کردار کے تعین کے بارے میں کافی فکر مند ہے۔ عمومی طور پر خیال کیا جاتاہے کہ جنگ بندی کوئی اتفاق نہیں بلکہ برطانوی حکام کے ذریعہ دونوں ممالک کے مابین ایک کامیاب بیک چینل کا نتیجہ ہے۔یاد رہے کہ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ پہلے ہی بھارت کے ساتھ امن اور مسئلہ کشمیر کے پرامن حل پر زور دے چکے ہیں۔ وزراعظم عمران خان نے سری لنکا کے دورے میں جنوبی ایشیاء میں تجارت اور روابط کو فروغ دینے کے لئے بالخصوص بھارت کے ساتھ امن اور مذاکرات کی ضرورت پر بھی زور دیا تھا۔ بھارت کی مجبوریوں کو بھی مدنظر رکھا جائے۔ تمام تر سیاسی چالوں اور سرمایہ کاری کے باوجود بھارت 5 اگست کے فیصلے کو جائز عمل کے طور پر قبول کرانے اور حکمران بی جے پی کو سیاسی حمایت فراہم کرنے پرکشمیری عوام کو راضی کرنے میں ناکام

رہا ہے۔ڈسٹرکٹ ڈویلپمنٹ کونسلوں کے حالیہ انتخابات میں بی جے پی کشمیر کے مسلم اکثریتی علاقوں میں سے محض تین نشستیں حاصل کر سکی ۔ بھارت نواز سیاسی جماعتیں بھی تمام تر لالچوں اور دھمکیوں کے باوجود آرٹیکل 370 اور 35 اے کی بحالی کے مطالبے سے دستبردار نہیں ہوئی ہیں۔ مزید برآں مسئلہ کشمیر عالمی منظر نامہ سے بھی غائب نہیں ہورہا ۔ جنیوا میں قائم اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل سے لے کر برطانوی پارلیمنٹ تک حالیہ ہفتوں میں مسئلہ کشمیر پر تبادلہ خیال کیا گیا ہے۔حال ہی میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ماہرین نے کشمیر کے بارے میں ایک رپورٹ جاری کی، جس میں انہوں نے تاریخ میں پہلی بار کشمیر میں آبادیاتی تبدیلی کے خدشے کا اعتراف کیا ۔ نئی دہلی کو انسانی حقوق کی پامالیوں کے لئے جوابدہ بنانے کا مطالبہ کافی توانا ہوچکا ہے۔ نمایاں بین الاقوامی ادارے اس مطالبے کی اب پشت پناہی کرتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے برعکس، صدر جو بائیڈن نے امریکی خارجہ پالیسی میں انسانی حقوق کے تحفظ کو ترجیح دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ہیومن رائٹس کونسل کے اجلاسوں میں دوبارہ شامل ہونے کا اعلان، اس حقیقت کا ثبوت ہے کہ امریکہ کے لیے انسانی حقوق اس کی خارجہ پالیسی کا اہم جزورہے گا۔ ہیگ میں قائم انٹرنیشنل کریمنل کورٹ (آئی سی سی) میں بھی امریکہ دوبارہ شمولیت کا ارادہ ظاہر کرچکا ہے۔ اس تناظر میں امریکی

انتظامیہ کی طرف سے کشمیر میں بھارت کے انسانی حقوق کے ریکارڈ سے صرف نظر کرنا ممکن نہ ہوگا۔ سیز فائر کے اعلان سے بھارتی میڈیا میں کافی جوش و خروش پیدا ہوا۔بہت سارے سینئر تجزیہ کاروں نے دونوں ممالک کے مابین تعلقات کو معمول پر لانے کی سمت میں مزید اقدامات کی پیش گوئی کی ہے۔یہ امکان بھی ظاہر کیا جارہاہے کہ سارک کانفرنس کے پاکستان میں ہونے والے اجلاس میں وزیر اعظم نریندر مودی کی شرکت کا امکان ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اگلے چند ماہ کے دوران بھارت اور پاکستان کے مابین اعتماد سازی کے ڈرامائی اقدامات متوقع ہیں۔جن میں مسئلہ کشمیر کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔کشمیری عوام کو امید ہے کہ حالیہ جنگ بندی الگ تھلگ واقعہ نہیں ہوگی، بلکہ سفارتی تعلقات کو معمول پر لانے اور وادی کشمیر سے فوجوں کے جزوی انخلاکا عمل شروع کرنے کے سلسلے کی ایک کڑی ہوگی تاکہ موجودہ سیاسی گھٹن کا خاتمہ ہو اور سیاسی سرگرمیاں ازسرنوشروع ہوسکیں۔ سازگار ماحول پیدا کرنے کیلئے 4000 سے زائد سیاسی کارکنوں کو رہا کیا جانا چاہئے۔اسی طرح بھارت کو مقبوضہ کشمیر کو ریاست کا اس ازسر نو رتبہ دینا ہوگا اور ان آبادیاتی تبدیلیوں کو روکنے کے لیے بھی جامع قانون سازی کرنا ہوگی۔ اگر ٹھوس اقدامات پر عمل نہ کیا گیا، تو فائر بندی کا اعلان کشمیر یوں کی توقعات پر پانی پھیرنے کے متراف ہوگا۔ اور نہ یہ سیزفائر

زیادہ دیر تک قائم رہ سکے گا۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں