اسلام آباد(پی این آئی)وہ لوگ جنھوں نے کبھی ہمیں طعنے دیے تھے کہ دیکھو اب خانوں کی لڑکی پولیس میں ملازمت کرے گی وہ اب ناصرف اپنے مسائل لے کر میرے پاس آتے ہیں بلکہ ان میں سے کئی اپنے بیٹیاں لے کر بھی میرے پاس آئے اور اپنی بیٹیوں سے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ تم بھی سونیا کی طرح بنوں۔یہ کہنا ہے ایبٹ آباد سے تعلق رکھنے والی سونیا شمروز کا جنھیں صوبہ خیبر پختونخوا میں پہلی خاتون ڈی پی او تعینات ہونے کا اعزاز حال ہی میں حاصل ہوا ہے۔ قدامت پسند معاشرے سے تعلق ہونے
کی بنا پر ان کے لیے خود کو منوانا ایک چیلنج تھا مگر یہ سب ان کے والد اور شوہر کی سپورٹ کی بدولت ممکن ہو پایا ہے۔بی بی سی اردو میں زبیر خان کی شائع رپورٹ کے مطابق سونیا شمروز کے شوہر خود بھی سی ایس ایس آفیسر ہیں اور ایف بی آر میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں اور سونیا کے بقول انھوں نے ہی شادی کے بعد سی ایس ایس کے امتحان کی تیاری میں ان کی مدد کی تھی اور یہی وجہ ہے کہ انھیں اس مقصد کے لیے کسی اکیڈمی جانے کی ضرورت نہیں پڑی۔سونیا بتاتی ہیں کہ سی ایس ایس امتحان کے بعد جب مجھے پولیس فورس کے لیے منتخب کر لیا گیا تو پولیس فورس میں شمولیت کے لیے میرے خاوند اور سسرال نے میری ہمت افزائی کی تھی۔مگر سونیا کا یہاں تک پہنچنے کا سفر کچھ اتنا آسان بھی نہیں تھا،سونیا بتاتی ہیں کہ وہ چار بہنیں اور ایک بھائی ہیں۔ ہمارے والد نے ہم بیٹیوں کو بھی اسی سکول میں پڑھایا جس سکول میں ہمارے اکلوتے بھائی کو داخل کروایا گیا تھا۔ انھوں نے کبھی بھی بیٹیوں اور بھائی میں فرق روا نہیں رکھا اور یہی وجہ ہے کہ میرے علاوہ میری دیگر تین بہنیں بھی انتہائی کامیاب پروفیشنل زندگی گزار رہی ہیں۔میری بڑی ڈاکٹر ہیں اور برطانیہ میں اس شعبے میں اعلی تعلیم حاصل کر رہی ہیں، دوسری بہن ماہر نفسیات جبکہ تیسری بہن نے حال ہی میں مارکیٹنگ میں ایم ایس کیا ہے اور اب وہ ایک بین الاقوامی ادارے میں خدمات انجام دے رہی ہیں۔میری والدہ زیادہ پڑھی لکھی نہیں تھیں مگر انھوں نے بھی ہم پر بھرپور توجہ دی، بچپن ہی میں وہ ہماری پڑھائی پر اسی طرح توجہ دیتی تھیں جس طرح بھائی کی پڑھائی پر۔ہمارے والد ایک مصروف انسان تھے مگر اس کے باوجود سکول سے لے کر کالج اور یونیورسٹی تک وہ ہم سب بہنوں کو خود چھوڑنے جاتے اور خود لاتے تھے اور ہر چیز کی خود نگرانی کرتے تھے۔مجھے یاد ہے بچپن ہی سے مجھے سب کہا کرتے تھے کہ میری شخصیت فورسز کے لیے زبردست ہے۔ میں نے فوج کے زیر انتظام سکولوں اور کالجوں میں تعلیم حاصل کی تھی۔ مجھے وہاں پر وردی اچھی
لگا کرتی تھی۔ میں خود بھی بچپن میں وردی پہن کر خوش ہوتی تھی۔تعلیم مکمل کرنے کے بعد جب میری منگنی ہوگئی تو اس وقت سی ایس ایس کرنے کی تیاری شروع کر دی تھی۔ سی ایس ایس کی تیاری کرتے ہوئے بھی ذہن میں نہیں تھا کہ میں پولیس میں جائوں گی۔ پہلا امتحان دیا تو اس میں کامیاب نہیں ہو سکی۔اسی دوران میری شادی ہوگئی۔ ذیشان علی (سونیا کے شوہر) جانتے تھے کہ میں سی ایس ایس کرنا چاہتی ہوں۔ اس پر ہم دونوں کے درمیان بات ہوئی۔ انھوں نے مجھ سے کہا کہ مجھے سی ایس ایس کا
امتحان دوبارہ دینا چاہیے۔ جب دوبارہ سی ایس ایس کا امتحان دیا تو کامیاب ہوگئی اور مجھے پولیس فورس کے لیے منتخب کر لیا گیا۔جب میں پولیس فورس کی ضروری تربیت کے بعد پہلی مرتبہ اے ایس پی مانسہرہ تعینات ہوئی تو اس ضلع مانسہرہ میں اوپر تلے تین اندھے قتل کی وارداتیں ہوگئیں۔ مقامی میڈیا اور مقامی افراد باتیں کرنے لگے ایک مرد پولیس افسر ان وارداتوں کا سراغ نہیں لگا سکتا تو یہ خاتون کیا کر لے گئی۔ وہ کہتے کہ خاتون پولیس افسر کی موجودگی میں حالات مزید خرابی کی جانب جائیں گے۔
یہ میرے کیریئر کی پہلی تعیناتی تھی، اوپر سے لوگوں اور میڈیا کا رویہ جو مجھے ہر حال میں اس سیٹ کے لیے نااہل ثابت کرنا چاہتے تھے۔ ان حالات میں میں نے فیصلہ کیا کہ میں ناصرف ان تینوں قتل کی وارداتوں کا سراغ لگاں گئی بلکہ مانسہرہ میں امن و امان کی صورتحال کو بھی مثالی بنائوں گی۔میں نے دن رات اس پر کام شروع کیا اور روایتی پولیس ہتھکنڈوں کے برعکس اپنی تربیت کو برئے کار لاتے ہوئے جدید طریقہ تفتیش اور ٹیکنالوجی کا سہارا لیا۔نتیجہ یہ نکلا کہ 48 گھنٹے بعد ہی ہم نے پہلے قتل کی،
چند دن بعد دوسرے اور پھر تیسرے قتل کا سراغ لگا لیا تھا۔اس کے بعد لوگوں نے ناصرف مجھ پر توجہ دینا شروع کر دی بلکہ میڈیا کے اندر اس بارے میں کافی کچھ کہا اور لکھا جانے لگا۔ یہاں سے میرے خاندان والوں کو بھی پتا چل گیا کہ میں وہ سب کچھ کر سکتی ہوں جو کہ ایک اچھا اور ایماندار مرد پولیس افسر کر سکتا ہے۔مجھے میرے افسران نے کہا تھا کہ ہم جانتے تھے کہ آپ کر سکتی ہیں۔مجھے دیکھ کر
دیگر خواتین نے پولیس فورس جوائن کی ، ڈی پی او چترال تعینات ہونے سے پہلے میں نے اے ایس پی مانسہرہ، ایڈیشنل ایس پی ایبٹ آباد، پولیس ٹرینگ سکول مانسہرہ اور دیگر مقامات پر مختلف فرائض انجام دیے تھے۔جب میں ضلع مانسہرہ میں تعنیات ہوئی تو اس وقت پولیس فورس میں خواتین کی تعداد بہت کم تھی۔ میں فعال پولیسنگ کرتی تھی۔ ساری ساری رات گشت کرنا، چھاپے مارنا، ملزموں کا پیچھا کرنا، تفتیش کرنا، لوگوں سے ملاقاتیں کرنا عرض جو کچھ ایک پولیس افسر سے توقع کی جاتی تھی، وہ ساری
فرائض انجام دیتی تھی۔میری یہ فعالیت دیکھ کر بہت بڑی تعداد میں خواتین نے پولیس فورس میں شمولیت اختیار کی ہے اور یہ صورتحال صرف ہزارہ ڈویژن ہی کی نہیں بلکہ پورے صوبہ کی ہے۔کئی مرتبہ تو اس طرح ہوا کہ خواتین کے لیے مختلف پوسٹوں پر تعیناتیوں کی جب آسامیوں کی تشہیر ہوئی تو والدین اپنی لڑکیوں کو لے کر میرے پاس آتے۔ مجھ سے مختلف سوالات کرتے، ان کی بچیاں مجھ سے بات کرتیں اور پھر کئی امتحان میں شریک ہوتیں اور کئی ایسی تھیں جو بعد میں مجھے فورس میں ملیں اور انھوں نے
بتایا کہ انھیں فورس میں شمولیت کا حوصلہ مجھے دیکھ کر ملا ہے۔اسی طرح ہمارے علاقے سے کئی والدین نے اپنی لڑکیوں کو سی ایس ایس امتحان میں شریک کروایا ہے۔ یہ لڑکیاں مجھ سے امتحان کی تیاری میں مدد لیتی رہی ہیں۔ اب ان میں سے کئی مختلف محکموں میں افسر ہیں۔میری حالیہ تعیناتی تقریبا دو سال کے وقفے سے ہوئی ہے۔ اس دوران میں ضروری تربیت اور کچھ کورسز کر رہی تھی۔ جب میں نے دوبارہ فورس جوائن کی تو مجھے کہا گیا کہ آئی جی پی خیبر پختونخوا نے طلب کیا ہے۔ میں حاضر
ہوئی تو میرا خیال تھا کہ میری تعیناتی کسی سافٹ پوزیشن پر ہوگئی۔ زیادہ سے زیادہ آئی جی پی دفتر میں کوئی ذمہ داری دے دی جائے گی۔مگر مجھے کہا گیا کہ آپ کا ٹریک ریکارڈ شاندار ہے، آپ فیلڈ میں کام کر سکتی ہیں اور یہ کہ آپ کو اب پولیس فورس کو فرنٹ سے لیڈ کرنا ہو گا۔مجھے اس سے کچھ اندازہ تو ہوگیا کہ شاید کسی ضلع یا کسی ڈویژن پولیس دفتر میں تعینات ت کیا جائے گا۔ مگر مجھے پھر بھی پوری طرح اندازہ نہیں تھا کہ مجھے ضلع لوئر چترال کا ڈی پی او تعینات کیا جا رہا ہے۔ میں جب لوئر چترال کا
چارج لینے آ رہی تھی تو مجھے اعتماد اور حوصلہ دیا گیا اور یہ پیغام دیا گیا کہ پوری پولیس فورس میری پشت پر کھڑی ہے۔میں ابھی لوئر چترال کے حالات کا جائزہ لے رہی ہوں۔ اپنے پولیس افسران سے میٹنگ کی ہیں۔ معززین اور شہریوں سے رابطے بڑھا رہی ہوں۔ چند دن کے اندر مجھے اندازہ ہوگیا کہ چترال کے اندر سب سے زیادہ مسائل کا شکار خواتین ہیں۔اللہ نے مجھے تین بیٹیوں سے نوازا ہے۔ میری بڑی بیٹی اب کچھ سمجھدار ہے مگر تقریبا ًدو سال قبل جب میں کورسز وغیرہ کر رہی تھی تو
اس وقت وہ اتنی سمجھدار نہیں تھی۔ جب لوئر چترال میں میرا پہلا دن تھا اور میں نے صبح ان کو ناشتہ وغیرہ کروا کر تیاری کروائی تو اس وقت مجھے میری بڑی بیٹی نے کہا کہ ‘میری مما پولیس افسر ہیں۔ دیکھو یہ وردی میں کتنی پیاری اور سمارٹ لگ رہی ہیں۔ مجھے ان پر فخر ہے۔میں اپنی بیٹی کے یہ الفاظ سن کر چند لمحوں کے لیے تو ششدر رہ گئی اور پھر مجھے خود پر بھی فخر محسوس ہوا۔میری والدہ جنھوں نے شروع میں پولیس ملازمت کو زیادہ قبول نہیں کیا تھا، اب میرا ذکر فخر سے کرتی ہیں۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں