واشنگٹن(این این آئی )کووڈ 19 کو شکست دینے والے کچھ مریضوں میں کووڈ ٹوئیز (پیروں کی انگلیوں کی رنگت جامنی ہوجانا)اور ریشز زیادہ طویل عرصے تک برقرار رہنے والی علامات ہوسکتی ہیں۔میڈیارپورٹس کے مطابق یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی۔کووڈ 19 اور جلدی مسائل کے درمیان تعلق تو ابھی
واضح نہیں مگر لانگ کووڈ کا شکار ہونے والے کچھ مریضوں(جس میں وہ بیماری سے صحتیاب تو قرار پاتے ہیں مگر علامات برقرار رہتی ہیں)، میں جلدی علامات 60 دن یا اس سے زائد عرصے تک برقرار رہ سکتی ہیں۔تحقیق میں شامل ڈاکٹر ایسٹر فری مین نے بتایا کہ کووڈ ٹوئیز اور ریشز ورم کی نشانیاں ہوسکتی ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ کچھ مریضوں کو طویل المعیاد ورم کا سامنا ہوتا ہے جو کہ وائرس کے نتیجے میں متحرک ہوتا ہے۔انہوں نے مزید بتایا کہ ہم ابھی تک یہ سمجھ نہیں سکے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے، مگر انسانی جلد اس حوالے سے بہت اہم ہے کیونکہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جسم کے اندر کیا چل رہا ہے۔ان کے خیال میں یہ جلدی مسائل وائرس کے خلاف مدافعتی ردعمل کی نشانی ہوسکتی ہے۔اس مقصد کے لیے کووڈ 19 کے لگ بھگ ایسے مریضوں کے ڈیٹا کا جائزہ لیا گیا جن کو جلدی مسائل کا سامنا ہوا تھا۔ڈاکٹر ایسٹر فری مین نے بتایا کہ میرے خیال میں یہ احساس کرنا ضروری ہے کہ یہ تو بس آئس برگ کا سرا ہے جو جلد پر نمودار ہوتا ہے، جس پر لوگ ممکنہ طور پر توجہ بھی نہیں دیتے۔محققین نے بتایا کہ ہاتھوں اورر پیرون میں سرخی اور سوجن مشتبہ کیسز میں اوسطا 15 دن اور مصدقہ کیسز میں 10 دن تک رہتی ہے، جس کا مطلب ہوتا ہے کہ ان میں سے نصف مریضوں کی بیماری زیادہ لمبی ہوگی جبکہ نصف کی کم وقت کی۔تحقیق میں بتایا گیا کہ لانگ کووڈ کے شکار 6 افراد میں کووڈ ٹوئیز 60 دن تک موجود رہی جبکہ 2 مریضوں میں یہ علامات 130 دن سے بھی زیادہ عرصے تک موجود تھیں۔ماہرین کا کہنا تھا کہ جلد انسانی جسم کا سب سے بڑا عضو ہے اور جسم کے درجہ حرارت، لمس اور مدافعتی دفاع میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ہمارے لیے یہ حیران کن نہیں کہ ایک وائرس جو جسم میں مدافعتی نظام کو بہت زیادہ متحرک کردیتا ہے، کا ایسا ردعمل جلد پر نظر آتا ہے۔تحقیق کے مطابق کووڈ ٹوئیز بہت زیادہ تکلیف دہ بھی ہوسکتی ہیں جبکہ جلد کی یہ عجیب رنگت لمبے عرصے تک برقرار رہ سکتی ہے مگر تکلیف کا احساس ایک ہفتے تک رہتا ہے۔بیشتر مریضوں میں یہ علامات خود ختم ہوجاتی ہے مگر کچھ لوگوں میں یہ برقرار رہتی ہے۔محققین کا کہنا تھا کہ اس کا علاج ایک چیلنج ہے کیونکہ اس کا کوئی پروٹوکول موجود نہیں، جس پر ابھی ان کی جانب سے کام کیا جارہا ہے۔اس تحقیق کے نتائج گزشتہ دنوں کانگریس آف دی یورپین اکیڈمی آف ڈرامٹولوجی اینڈ وینیرولوجی میں پیش کیے گئے۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں