اسلام آباد(آئی این پی ) سپریم کورٹ نے جنگلات اور آب پاشی کے چاروں صوبائی سیکرٹری کو طلب کرلیا اور اسلام آباد انتظامیہ سے بھی ندیوں کے اطراف شجرکاری کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے ریمارکس دیے ہیں کہ سندھ حکومت جنگلات کی زمین کے غیرقانونی الاٹمنٹ کا تحفظ کر رہی ہے۔ بدھ کو سپریم کورٹ میں
دریاں، نہروں کے اطراف شجرکاری سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔ عدالت نے درختوں کی کٹائی پر سخت برہمی کا اظہار کیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کمراٹ اور سوات میں سارے درخت کاٹ دیے گئے ہیں، نتھیا گلی اور مری میں درختوں کا صفایا ہورہا ہے، یہی صورتحال رہی تو پانچ سال بعد کے پی میں سیاحت ختم ہوجائے گی، لوگ قدرتی حسن دیکھنے ہی کے پی میں جاتے ہیں، درخت کاٹنے سے برفباری بھی بند ہوجائے گی، دریائے سندھ کے اطراف کوئی درخت نظر نہیں آتا، کچے کا سارا علاقہ سندھ حکومت نے کاشتکاری کیلئے نجی افراد کو دیدیا، حالانکہ کچے کی سرکاری زمین پر تو گھنے جنگل ہونے چاہیے۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ پنجاب میں عدالتی حکم پر دو لاکھ درخت لگائے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ دو دو فٹ کے جو درخت لگائے وہ تو بکریاں کھا جائیں گی، کم سے کم چھ فٹ کے درخت لگائے جائیں جن کا اثر بھی ہو۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ سندھ حکومت کو ہدایت کی تھی کہ جنگلات کی زمین کی الاٹمنٹ منسوخ کرے، لیکن سندھ حکومت نے قانون بنالیا کہ جو الاٹمنٹ ہوچکی وہ برقرار رہے گی، دوسرے الفاظ میں سندھ حکومت غیرقانونی الاٹمنٹ کا تحفظ کر رہی ہے۔ سرکاری وکیل نے بتایا کہ بلوچستان میں اب تک 40 ہزار درخت لگائے ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ درخت صرف کاغذوں میں ہی نہیں لگانے، ایسی بات کریں جس کی ہم مجسٹریٹ سے تصدیق بھی کروا سکیں۔ عدالت نے جنگلات اور آب پاشی کے چاروں صوبائی سیکرٹری کو طلب کرلیا اور اسلام آباد انتظامیہ سے بھی ندیوں کے اطراف شجرکاری کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے سماعت ایک ماہ کیلئے ملتوی کردی۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں