کراچی(آئی این پی)وزیراعلیٰ سندھ نے وفاقی حکومت سے درخواست کی کہ جس طرح کووڈ19کی صورت میں حکومت سندھ کے کیے گئے اقدامات کی حمایت کی گئی تھی اسی طرح سیلابی صورتحال کے معاملے پر اقدامات میں سندھ حکومت کا ساتھ دیں، سندھ میں مختلف منصوبوں کیلئے بہت زیادہ سرمایہ کاری کی
ضرورت ہے اس لیے وفاقی حکومت سے ہماری درخواست ہے کہ وہاں بھی ہماری مدد کرے اور پورے سندھ کو ایک نظر سے دیکھے۔جمعرات کو وزیراعلیٰ ہائوس میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے مراد علی شاہ نے بتایا کہ کراچی میں سندھ حکومت کے802ارب روپے کے منصوبے عمل کے مراحل میں ہیں جس میں کے فور سمیت صرف پانی کی فراہمی کیلئے110ارب روپے کے منصوبے شامل ہیں, ہم چاہتے ہیں کہ وفاقی حکومت ان کو میچ کریں، انہوں نے کہا کہ جب کہا گیا کہ عالمی بینک نے کہا ہے کہ انفرا اسٹرکچر کے لیے آپ کو10ارب روپے چاہیے تو اس کا مذاق اڑایا گیا حالانکہ وفاقی حکومت نے ایک جگہ خود کہا تھا کہ 3ہزار ارب روپے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں ان منصوبوں کے لیے وفاقی حکومت ہمارے ساتھ کام کرے اور نہ صرف کراچی بلکہ پورے صوبہ سندھ کے لیے اسی عزم کا اظہار کرے۔وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے دورے کے دوران عوام نے مجھ سے کہا کہ ہماری اسی طرح مدد کریں جس طرح2011میں کی تھی جب اس وقت کے صدر آصف علی زرداری اور وزیراعظم یوسف رضاگیلانی خود ان علاقوں میں گئے تھے۔انہوں نے کہا کہ افسوس کی بات ہے کہ میں نے بھی میڈیا میں کراچی کے سوا کہیں کی فوٹیج نہیں دیکھی اگر دکھائی بھی تو صرف تنقید کے لیے، لیکن لوگوں کی حالت زار بھی دکھائیں تا کہ عوام کو معلوم ہو کہ کیا صورتحال ہے۔انہوں نے کہا مجھے پورے سندھ کے لیے مدد چاہیے خاص طور پر سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے لیے فوری ریلیف درکار ہے۔مراد علی شاہ نے کہا کہ میں نے چیئرمین این ڈی ایم اے سے بھی کہا اور سب سے کہتا ہوں کہ میرے ہاتھ میں کوئی چیز نہ دیں آپ خود جا کر عوام کو ریلیف پہنچائیں لیکن اللہ کے واسطے اس پر منفی سیاست نہ کی جائے۔سندھ میں بارش کے بعد کی صورتحال سے آگاہ کرتے ہوئے وزیر اعلی سندھ نے بتایا کہ سندھ میں بدین، عمر کوٹ، میرپورخاص، سانگھڑ، شہید بینظیر آباد کے کچھ علاقے دریا کا منظر پیش کررہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ان علاقوں میں موجود کچے مکانات تباہ ہوگئے ہیں اور بڑے شہر یعنی تعلقہ ہیڈکوارٹرز کو بھی چاروں طرف سے پانی نے گھیرا ہوا ہے لیکن اللہ کا شکر ہے کسی تعلقہ ہیڈکوارٹر کے مرکزی علاقوں میں پانی نہیں رکا، متاثرہ علاقوں میں لوگ اپنے خاندان سمیت سڑکوں پر پناہ لیے ہوئے ہیں۔بارش سے ہونے والے نقصانات سے آگاہ کرتے ہوئے وزیراعلی سندھ نے بتایا کہ ان بارشوں میں پورے سندھ میں 100اموات ہوئی جس میں 63کراچی جبکہ 35سندھ کے دیگر حصوں میں ہوئیں۔انہوں نے مزید بتایا کہ جوہی میں تقریبا 2لاکھ 40ہزار لوگ متاثر ہوئے، 23ہزار ایکڑ پر پھیلی فصلیں تباہ ہوگئیں، ایک ہزار 80کچے گھر مکمل طور پر منہدم جبکہ ایک ہزار640جزوی متاثر اور 30 پکے مکمل منہدم جبکہ 355جزوی متاثر ہوئے۔وزیراعلیٰ سندھ کا کہنا تھا کہ تعلقہ سانگھڑ میں48ہزار افراد، تعلقہ کھیپرو میں80سے81ہزار افراد متاثر ہوئے، تعلقہ عمر کوٹ میں 3لاکھ، سامارو میں ایک لاکھ25ہزار 500، کنڈری میں ایک لاکھ 55ہزار 200، پتھور میں 85ہزار 100افراد سیلابی صورتحال سے متاثر ہوئے۔کراچی میں بارش کے باعث ہونے والے نقصانات سے آگاہ کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ضلع وسطی میں 29پکے مکانات مکمل تباہ جبکہ 2کو جزوی نقصان پہنچا، ایک چھت منہدم ہوئی، 48 اسکول، ایک ہسپتال، ایک سرکاری دفتر، 4 مساجد کو نقصان پہنچا۔انہوں نے واضح کیا کہ یہ ابتدائی تخمینہ ہے ابھی مکمل اندازہ نہیں لگایا جاسکا۔ان کا کہنا تھا کہ کراچی کے مختلف علاقوں میں پانی نکالنے میں بہت وقت لگا، خاص کر کھارادر کے علاقے میں سب سے زیادہ مشکلات آئیں جو اب صاف کردیا گیا جبکہ اسی دوران عاشورہ کے جلوس بھی تھے اس لیے تمام تر کوششیں کر کے جلوس کے راست صاف کیے گئے۔مراد علی شاہ نے بتایا کہ اب ان جگہوں پر بہت کیچڑ اور گندگی ہے اور ڈی ایم سیز کو اسے صاف کرنے کی ہدایت دی جاچکی ہے، علاوہ ازیں سرجانی ٹان، یوسف گوٹھ کی بری حالت تھی جہاں سے بھی پانی نکال دیاگیا ہے اور کیچڑ صاف کرنے کی ہدایت کردی گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ نیا ناظم آباد میں بھی ڈپٹی کمشنر کو بھیج کے مدد کی پیشکش کی گئی تا کہ وہاں بھی لوگوں کی مشکلات دور کی جاسکیں۔ان کا کہنا تھا کہ صوبائی ڈزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کے پاس 42 ہزار خیمے تھے جو اب تقریبا صفر ہوگئے ہیں اور زیر آب علاقوں میں تقسیم کردیے گئے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ این ڈی ایم سے 2 ہزار خیمے ملے، کوشش کی جارہی ہے لوگوں کو کھانا پہنچائیں جس میں فلاحی ادارے بھی ہمارے ساتھ تعاون کررہے ہیں۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں