ضلع باجوڑ کا علاقہ اصیل ترغاو میںقدرتی دھات کرومائیٹ کی ایک مائن پر جاری 16 سالہ پرانا جھگڑا ختم ہو گیا

خار باجوڑ( آفتاب احمد )ضلع باجوڑ کا علاقہ اصیل ترغاو میں سٹین لیس سٹیل میں لچک اور مضبوطی میں استعمال ہونے والا قدرتی دھات کرومائیٹ کی ایک مائن پر جاری 16 سالہ پرانا جھگڑا ختم ہو گیا ۔اب تک کوئی 5 سو کے لگ بھگ پرائیوٹ فیصلوں کی باوجود کرومائیٹ کی مائن مکمل بند رہی ۔مصالحتی جرگہ کے

کاوشوں نے رنگ لاتے ہوئے مورچہ زن مقامی قبائل اور سرمایہ کار و قانونی لیز ہولڈر میں اتفاق رائے سے کرومائیٹ کا بند مائن چالو کردی گئی۔تفصیلات کےمطابق ضلع باجوڑ تحصیل برنگ میں قدرتی وسائل سے مالا مال سمجھا جانیوالا علاقہ اصیل ترغاو جہاں معدنیات کے ماہرین کے مطابق قدرتی وسائل کے بڑے بڑے ذخائر وہاں کے پہاڑوں میں موجود ہیں ۔یہاں پر کرومائیٹ کا ایک مشہور و معروف مائن جس سے نکالے جانیوالے خام مال سے پروسیسنگ کے بعد حاصل ہونے والے دھات کو سٹین لیس سٹیل کی تیاری کے دوران لچک اور مضبوطی کی غرض سے شامل کرکے استعمال کیا جاتا ہے ۔کرومائیٹ کے اس متنازعہ مائن پر مقامی قبائل اور سرمایہ کار پارٹی کے مابین 16 سے سال سے جاری جھگڑا جس کی نتیجہ میں یومیہ سینکڑوں ٹن خام دینے والا یہ مائن ٹھیک 16 سال مکمل بند رہا تو دوسری طرف متحارب قبائل ایک دوسرے کے جانوں کے دشمن بن بیٹھے تھے۔محکمہ منرل ڈیپارٹمنٹ خیبر پختون خواہ سے قانونی لیز یافتہ محمد ظفراللہ خان کاکڑ اور مقامی قبائل کے رضاء سے تشکیل دی گئی تین رکنی مصالحتی جرگہ کے کوششوں کے نتیجہ میں کرومائیٹ کا مشہور و معروف مائن سرکھنڈرو سیندانے مائن گزشتہ روز باقاعدہ طور پر چالو کردیا گیا جس سے باقاعدہ پیداوار شروع کرنے کے سلسلہ میں گزشتہ روز سروکھنڈرو کے مقام پر متحارب گروپوں اور ممتاز سرمایہ کار اور لیزی ظفر اللہ خان کاکڑ پر مشتمل فریقین کے مابین ایک مصالحتی تقریب منعقد ہوا جس میں پاک افغان سرحد پر واقع دو نئے قبائلی اضلاع مہمند اور ضلع باجوڑ سے تعلق رکھنے والے ممتاز سرمایہ کاروں جن میں مشال موٹر کار بار گین سنٹر کے مالک اور ممتاز ٹرانسپورٹر حاجی محمد طالب اف ناواگئی ، حاجی بہادر ،حاجی حسن ،مولا داود شاہ ، حاجی عبداللہ اور منیرالرحمان خٹک سمیت مقامی قبائلی مشران نے کثیر تعداد میں شرکت کی ۔بتایا جاتا ہے کہ کرومائیٹ کے اس مائن پر سال 2004ء سے تنازعہ چلا آرہا تھا جس کی وجہ سے یہ مائن مال دئیے بغیر کوئی 16 سال مکمل بند تھا ۔جاری تنازعہ کے نتیجہ میں کرومائیٹ مائن کے مختلف دعویداران مقامی قبائل مالکانہ حقوق پر ایک دوسرے کے شدید مخالف ہوگئے تھیں بلکہ مخالف فریقین نے مائن کے آس پاس پہاڑوں کے چوٹیوں پر مورچے بناکر مائن کو سرمایہ کاروں کے لئے بند کردیا تھا ۔طویل بندش کی وجہ سے مائن پر پڑا درجنوں ٹرک خام مال بغیر سپلائی کے وہاں پڑا رہا تو دوسری طرف طویل عرصہ سے پڑا خام مال موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے دن بدن خراب ہونے کا اندیشہ تھا ۔متحارب مقامی قبائل اور قانونی لیزی کے مابین اختلافات کی وجہ سے بندش کا شکار کرومائیٹ کے اس بڑے مائن کو علاقہ کی زیادہ تر مفاد میں چالو کرنے کی غرض سے تشکیل دی گئی تین رکنی مصالحتی جرگہ جن میں آخترگل،صاحبزادہ بہاؤالدین اور حسبان اللہ پر مشتمل تھا ۔جرگہ نے ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما متحارب گروپوں اور ممتاز سرمایہ کار اور لیزی ظفر اللہ خان کاکڑ کے مابین کامیاب مصالحتی کردار ادا کرتے ہوئے بالآخر متنازعہ کرومائیٹ کا مائن المعروف سرو کھنڈرو سیندانے مائن کو چالو کردیا ۔ضلعی صدر مقام خار سے کوئی 8 گھنٹے کی طویل مسافت پر نہایت دشوار گزار پہاڑی چوٹیوں میں کرومائیٹ کے اس مائن کو چالو کرنے کی موقع پر منعقدہ تقریب میں متحارب فریقین اور سرمایہ کار پارٹی کے افراد نے مصالحتی جرگہ کی کوششوں سے نہ صرف یہ کہ ایک دوسرے سے بغلگیر ہوگئے بلکہ دونوں فریقین نے آئندہ ایک دوسرے کے ساتھ مکمل تعاون کرنے کا عزم کیا۔یاد رہیں کہ تحصیل برنگ علاقہ اصیل ترغاو ضلع باجوڑ کا وہ نہایت پسماندہ علاقہ ہے جہاں کے عوام کے زندگی کا بیشتر گزر بسر افیون کی کاشت اور علاقہ میں قدرتی وسائل کے معدنیات پر منحصر ہیں لیکن علاقہ میں مقامی لوگوں کے مابین چھوٹے چھوٹے قبائلی تنازعات نے نہ صرف ان کی زندگی کو مکمل مفلوج کررکھا ہے بلکہ یہاں پر پائے جانیوالے قدرتی معدنیات سے مقامی لوگوں سمیت سرمایہ کاروں کو شدید مشکلات کا شکار بنادیا تھا جس کہ وجہ سے سرمایہ کاروں کو وہاں پر کاروباری سرگرمیوں میں بے پناہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا ۔علاقہ کے مکینوں اور سرمایہ کاروں کے مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے 73 سال بعد علاقہ میں سیکیورٹی چیک پوسٹوں کے قیام کا فیصلہ کردیا گیا ہیں جس کی نتیجہ میں وہاں پر مختلیف مقامات پر مجوزہ تین سیکیورٹی چیک پوسٹوں میں سے ایک چیک پوسٹ کو پنجکوڑئ کے مقام پر باقاعدہ طور پر قائم کردیا گیا ہے جبکہ مذید دو چیک پوسٹوں کو اگلے دنوں میں قائم کیا جارہا ہیں۔۔۔۔۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں