میرے گھر میں ڈاکو گھس آئے ہیں، لاہور کی خاتون سے فیس بک پیغام لکھ کر ڈاکو پکڑوا دیئے، بالکل فلمی کہانی بن گئی

لاہور (پی این آئی)میرے گھر میں ڈاکو گھس آئے ہیں، لاہور کی خاتون سے فیس بک پیغام لکھ کر ڈاکو پکڑوا دیئے، بالکل فلمی کہانی بن گئی،لاہور میں نڈر خاتون نے کمال ذہانت کا مظاہرہ کرتے ہوئے گھر میں گھسنے والے ڈاکوؤں کو فیس بک کے ذریعے گرفتار کرادیا۔لاہور کے علاقے ماڈل ٹاؤن کی رہائشی صبا بانو نامی

خاتون کے گھر ہفتے کے روز ڈاکو گھس گئے۔صبا کے مطابق وہ کورونا کے باعث اپنے کمرے میں آئسولیشن میں تھیں اور ہیڈ فون لگائے فلم دیکھ رہی تھیں جب کہ ان کی بہن گھر کے کام کاج میں مصروف تھیں۔صبا کو کمرے میں اچانک سے شور کی آواز محسوس ہوئی لیکن انہوں نے نظر انداز کیا بعد ازاں انہیں دوبارہ شک ہوا جس کے بعد انہوں نے سیڑھیوں سے نیچے فلور پر دیکھا جہاں کچھ ڈاکو جمع تھے جو ان کے والد سے مزاحمت کررہے تھے۔خبر رساں ویب سائٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے صبا نے کہا کہ پہلے تو انہیں کچھ سمجھ نہیں آیا لیکن جب وہ کمرے میں لوٹیں تو انہوں نے دروازہ صوفہ لگا کر بند کردیا جس کے بعد ان کے ذہن میں فیس بک پر اس حوالے سے پوسٹ کرنے کا آئیڈیا آیا اور انہوں نے پریشانی کی کیفیت میں کپکپاتے ہاتھوں سے فیس بک پر لکھا کہ ’میرے گھر میں ڈاکو گھس آئے ہیں‘۔انہوں نے بتایا کہ ’میرے اسٹیٹس کے بعد دوستوں کے کومنٹس آنا شروع ہوگئے جس میں سے ایک دوست نے پولیس کو کال کرنے کا مشورہ دیا اور میں نے فوراً کال کی اور پولیس نے بھی فوری جواب دیا‘۔صبا نے کہا کہ ’پولیس کی میرے پاس کچھ دیر بعد دوبارہ کال آئی جس پر انہوں نے گھر نہ ملنے کے بارے میں بتایا جس پر انتہائی غصہ آیا لیکن جیسے ہی ڈاکو میرے کمرے کے دروازے پر آئے اور زور زور سے توڑنے کی کوشش کی تو اس دوران پولیس پہنچ گئی‘۔ان کا کہنا تھا کہ ’پولیس نے میرے گھر کی لوکیشن فیس بک سے ہی ٹریک کی اور بروقت ایکشن لیتے ہوئے گھر پہنچ گئے اور تمام ڈاکوؤں کو پکڑ لیا’۔اس حوالے سے مقامی پولیس اسٹیشن کے ایس ایچ او قادر علی کا کہنا تھا کہ ’صبا نے سوشل میڈیا پر مدد مانگنے کے لیے اسٹیٹس ڈالا جس کے بعد ان کے دوستوں نے بھی 15 پر کال کی، میں وہیں قریب ہی تھا لہٰذا جلدی جائے وقوعہ پر پہنچ گیا‘۔انہوں نے بتایا کہ ملزمان نے جو چیزیں چوری کی تھیں وہ واپس رکھ دیں اور گھر والوں سے معافی بھی مانگی۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں

close