کراچی(پی این آئی)پیپلزپارٹی کے رہنماؤں پر لگائے گئے اپنے الزامات پر قائم ہوں، وقت آنے پر ثابت کروں گی، سنتھیا رچی نے سٹینڈ لے لیا۔امریکی شہری اور ٹریول لاگر سنتھیا رچی نے کہا ہے کہ پیپلزپارٹی کے رہنماؤں پر لگائے گئے اپنے الزامات پر قائم ہوں،رحمٰن ملک نے ویزہ کا مسئلہ حل کرانے کا کہہ کر ڈرائیور
بھیج کر اپنے پاس بلایا، گلدستہ اور قیمتی تحفہ دینےکے بعد نشہ آور مشروب پلایا اور اس کے بعد زیادتی کا نشانہ بنایا، یوسف رضا گیلانی نے جان بوجھ کر مجھے غیرمناسب طریقے سے گلے لگایا، مخدوم شہاب الدین نے کندھے پر مساج کرنے کی کوشش کی، بینظیر بھٹو کے بارے میں جو ٹوئٹ کیا وہ معلومات پیپلزپارٹی کے سینئر لوگوں نے دی تھیں، مجھے پی ٹی ایم اورپیپلز پارٹی کے درمیان تعلقات کے تانے بانے ملے ہیں، میں کس ویزے پر پاکستان میں کام کررہی ہوں یہ پیپلزپارٹی کا مسئلہ نہیں ہے ،میرا ایجنڈا سچائی ہے جوعدالت میں سامنے آئے گا، اپنے الزامات کو ثابت کرنے کے لئے ہر حد تک جاؤں گی۔اس کے علاوہ سنتھیا رچی نے ایک نجی ٹی وی چینل کوبھی انٹرویو دیا۔ پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے کہاکہ انہوں نے مجھ پر الزام لگایا کہ دست درازی کی میں صرف یہ پوچھنا چاہ رہا ہوں کہ اس زمانے میں دہشت گردی کی وجہ سے پریذیڈینسی میں سخت سیکیورٹی تھی اس وقت یہ وہاں کیا کر رہی تھیں اگر آئی بھی ہوں گی مجھے یاد نہیں ہے میں انہیں پہچانتا بھی نہیں ہوں وزیراعظم کو بہت سے لوگ ملتے ہیں لیکن یہ کہنا کہ اس پارٹی کے اندر میں نے انہیں گلے لگایا ایسا کچھ نہیں ہوا،سابق وفاق وزیر صحت مخدوم شہاب الدین نے کہا کہ میں حلفیہ کہنا چاہوں گا کہ ان کے تمام الزامات غلط ہیں یہ ساری باتیں یہ کسی کے کہنے پر کر رہی ہیں۔ تحقیقات ہونی چاہئیں۔ فی الحال میں تو کوئی لیگل ایکشن نہیں لوں گا لیکن ہماری پارٹی ضرور سوچ رہی ہے اس بارے میں جو اتنی غلیظ باتیں کی ہیں بینظیر کے بارے میں۔سنتھیا رچی نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پیپلزپارٹی کے رہنماؤں پر لگائے گئے اپنے الزامات پر قائم ہوں، عدالت میں تحقیقات کا سامنا کرنے کے لئے بالکل تیار ہوں، میرے ایک انٹرویومیں یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ شاید مخدوم شہاب الدین نے مجھے بار بار مساج کرنے کی کوشش کی مگرایسا نہیں ہے، میں نے رپورٹرسے رابطہ کیا اور ا نہیں حقیقت بتائی تو انہوں نے اپنی تصحیح کرلی، میرے وزارت صحت کے ساتھ بہت اچھے تعلقات تھے، پیپلز پارٹی نے 2010ء میں مجھے اپنے ساتھ کام کرنے کیلئے میری مدد کی، میرے ساتھ ہراسانی کا پہلا واقعہ اس وقت ہوا جب سابق وزیر مخدوم شہاب الدین نے میرے کندھوں پر مساج کرنے کی کوشش کی، مخدوم شہاب الدین کی یہ حرکت میرے لئے غیرمتوقع تھی اور میں نے انہیں اپنے سے دوررہنے کے لئے کہا ۔ سنتھیا رچی کا کہنا تھا کہ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کا یہ بیان سچ نہیں کہ ان کی اور میری ملاقات صرف ایک بار ایک سفارتی تقریب میں ہوئی ، یوسف رضا گیلانی کو ان کے عہدے سے ہٹایا گیا تواس وقت میری ان سے ایوان صدر میں ملاقات ہوئی تھی، ایوان صدر اور وزیراعظم ہاؤس میں لاگ بکس مرتب کی جاتی ہیں، ایجنسیاں آسانی سے بتاسکتی ہیں کہ ایوان صدر میں کون کس وقت آیا اور کس وقت گیا، یوسف رضا گیلانی سے ملی تو اس وقت دیگر چار لوگ بھی موجود تھے، اس ملاقات میں ہم نے متعدد موضوعات پر بات کی، جب ہم رخصت ہونے لگے تو یوسف رضا گیلانی نے جان بوجھ کر مجھے غیرمناسب طریقے سے گلے لگایا، میں پیچھے ہٹی تو دیکھا کہ کمرے میں موجود باقی مرد نیچے دیکھ رہے تھے کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔سنتھیا رچی نے کہا کہ علی گیلانی سے کئی برس پہلے ملاقات ہوئی تھی، علی حیدرگیلانی سے اس لئے اچھے سے بات کی کیونکہ انہوں نے مجھ سے اچھے سے بات کی تھی۔سنتھیا رچی کا کہنا تھا کہ رحمٰن ملک نے ویزہ کا مسئلہ حل کرانے کا کہہ کر ڈرائیور بھیج کر اپنے پاس بلایا، گلدستہ اور قیمتی تحفہ دینے کے بعد نشہ آور مشروب پلایا اور اس کے بعد زیادتی کا نشانہ بنایا، رحمٰن ملک مجھ سے پاکستانی ویزے کے حوالے سے بات کرنا چاہتے تھے، انہو ں نے مجھ سے فون پر رابطہ کیا تھا، رحمٰن ملک نے کہا کہ ویزے کے معاملہ پر آپ آکر مجھ سے بات کریں، رحمٰن ملک نے مجھے لینے کے لئے گاڑی میری رہائشگاہ پر بھیجی،رحمٰن ملک کے ڈرائیور نے بڑی گاڑی میں مجھے پک کیا تھا، رحمٰن ملک کے کمرے میں بڑاگلدستہ، مشروب اورمہنگے موبائل کا گفٹ موجود تھا، رحمٰن ملک نے مجھے گلدستہ دیا جس کے بعد نشہ آور مشروب پلا یا جسے پی کرمیں بیہوش ہوگئی، میرے مدہوش ہونے کے بعد رحمٰن ملک نے مجھ سے زیادتی کی،ملاقات کے بعد رحمٰن ملک نے مجھے گاڑی میں واپس ڈراپ کروایا، واپسی پر اتنی مدہوش تھی کہ چلنا بھی مشکل ہورہا تھا، رحمٰن ملک نے واپسی پر مجھے ڈراپ کرنے والے ڈرائیورکو دو ہزارپاؤنڈز دیئے۔ سنتھیا رچی نے کہا کہ میں نے امریکی سفارتخانے کو شکایت کی مگر خاص رسپانس نہیں ملا، امریکی سفارتخانے نے مجھے امریکا واپس جانے کا مشورہ دیا، ایک سے زیادہ لوگوں نے مختلف موقعوں پرمجھے جنسی طور پر ہراساں کیا، مجھ سے زیادتی کی گئی جس پر میں نے یہ ردعمل دینا شروع کیا ہے، 10برس بعد یہ بات کرنے کے قابل اس لئے ہوئی کہ آج میرے پیپلز پارٹی ، ن لیگ میں روابط ہیں، میرے تحریک انصاف میں بھی روابط ہیں، مجھے آن لائن بھی ہراساں کیا جاتا رہا ہے۔سنتھیا رچی کا کہنا تھا کہ دو سال سے پی ٹی ایم کے بارے میں تحقیق کررہی ہوں، مجھے پی ٹی ایم اورپیپلز پارٹی کے درمیان تعلقات کے تانے بانے ملے ہیں، بینظیر بھٹوسے متعلق جو ٹوئٹ کی وہ معلومات مجھے پیپلز پارٹی کے سینئر لوگوں نے دی تھیں، میں کس ویزے پر پاکستان میں کام کررہی ہوں یہ پیپلزپارٹی کا مسئلہ نہیں ہے، کس ویزے پر پاکستان میں موجود ہوں کسی کوا س سے لینا دینا نہیں ہونا چاہئے، میں جس ویزے پرپاکستان میں مقیم ہوں حکومت اور انتظامیہ کو اس کا علم ہے، میرا ایجنڈا سچائی ہے جوعدالت میں سامنے آئے گا، اپنے الزامات کو ثابت کرنے کے لئے ہر حد تک جاؤں گی، میں پاکستان میں ہی ہوں کہیں نہیں جارہی ہر طرح کے حالات کا سامنا کروں گی، ذاتی طور پر بینظیربھٹو کی عزت کرتی ہوں۔سنتھیا رچی نے ایک نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان آنے کے بعد وزیر صحت شہاب الدین کے ساتھ کام کیا ،شروع کے کچھ مہینے اچھے گزرے وزارت صحت کی طرف سے گھر بھی ملا تھااس دوران طلباء کو لیکچرز بھی دئیے ،پیپلز پارٹی کے لوگ کئی برسوں سے مجھے دھمکیاں دے رہے ہیں، پی ٹی ایم اور پیپلز پارٹی کے تعلقات پر پچھلے دو سال سے کام کر رہی ہوں، اس بارے میں سوشل میڈیا پر یہ انکشاف کیے تو مجھے انتہائی خطرناک دھمکیاں دی ، پیپلز پارٹی کی طرف سے ریپ کی دھمکیوں کے میسیجز میرے پاس موجودہیں، مجھے پی پی اور ن لیگ دونوں کافی عرصے سے ہراساں کر رہے ہیں ،پی پی کو جمہوری پارٹی کی بجائے ایک ٹھگوں کی جماعت پایا ،ایم کیو ایم کو پی پی سے بہتر سمجھتی ہوں ،میرا مقصد بے نظیر بھٹو کی تضحیک کرنا نہیں تھا انتقال کرجانے والے لوگوں کے بارے میں منفی گفتگو کرنا اچھا نہیں سمجھتی ، پی پی کے سینئر لیڈرز نے بتایا کہ وہ بینظیر بھٹو سے خوف زدہ رہا کرتے تھے پی پی رہنماؤں کے خواتین سے متعلق جنونی رویے تھے ، یہ مجھے ملنے والے پیغامات سے واضح ہے جو ایف آئی اے کو فراہم کردیئے ہیں ،پی پی سے ہراساں نہ کرنے کی التجا کی مگر انہوں نے میرے خاندان کو بھی نشانہ بنایا،اس کے بعد میں نے ان کے خلاف مزیدثبوت اکھٹا کرنے شروع کردیے ،جب مجھے اندازہ ہوا کہ پی پی پی ایک جمہوری جماعت نہیں بلکہ زرداری کا ٹولہ ہے تو میں نے ان رہنماؤں کے ساتھ ہونے والی اپنی گفتگو ریکارڈ کرنا شرو ع کردی ، ایف آئی اے نے میرے پچھلی شکایات پر بھی مناسب کاروائی نہیں کی یہ امریکا نہیں ادھر قانون کی حکمرانی نہیں لوگوں کو خریدا جاتا ہے یہاں تحقیقاتی ادارے کام نہیں کرتے یہاں اس طرح ہراساں کیا جاسکتا ہے تو عام لوگوں کا تو کوئی پرسان حال نہیں ہوگا ۔ سنتھیا رچی کا کہنا تھا کہ مجھ سے بڑے مشکوک حالات میں جنسی زیادتی کی گئی اور یہ اس وقت کے ایک طاقتور شخص نے کیا ہو تو کون آپ کا یقین کرے گا ۔ اگر آپ یہ کہیں کہ ٹاپ اٹارنی جنرل نے آپ سے زیادتی کی ہے جب کہ وہ یہ دعویٰ کرے کہ وہ ایک جمہوری جماعت ہے۔ میرے ساتھ جو زیادتی کی گئی وہ اسامہ بن لادن واقعے کے بعد کی بات ہے اس وقت پاکستان اور امریکہ کے تعلقات بہت خراب تھے مجھے اس وقت کسی ایسے شخس کی ضرورت تھی جس سے میں ذاتی طور پر بات کرسکتی کچھ دن بعد میں نے سفارت خانے کے ایک دوست کو کسی پارٹی کے لئے دعوت دی جس میں اس سارے واقعے کا ذکر کیا یہ پرائیوٹ گفتگو تھی کوئی خاص رد عمل نہیں ملا اس نے مجھے کہا کہ وہ اس کا فالو اپ لے گا ایک اور شخص سے بات کی لیکن کوئی خاص رسپانس نہیں ملا ۔ پھر میں ایک عرصے تک خاموش رہی اور خوفزدہ ہونے کے باعث میں اس واقعے کو رپورٹ بھی نہیں کیا میں اکیلی تھی میری والدہ امریکا میں تھیں اور وہ ایک بیوہ خاتون ہیں انہیں سب بتا کر پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی ۔ مجھے یہ بھی خدشہ تھا کہ کوئی میرا یقین نہیں کرے گا، میں نے ایک اور امریکی دوست سے بات کی لیکن وہاں سے بھی کوئی خاص رسپانس دنہیں ملا ۔ پچھلے دو سال سے میں یوسف رضا گیلانی کہتے ہیں وہ آپ سے ایک دفعہ ملے ہیں اور جب وہ وزیراعظم نہیں تھے اس کے جواب میں سنتھیا رچی نے کہا کہ مجھے ایک پاکستانی امریکن نے ایوان صدر میں دعوت دی تھی جن کے سابق وزیر اعظم یوسف گیلانی سے بہت اچھے تعلقات تھے جب میں ایوان صدر گئی تو وہاں چار افراد تھے ان میں سے دو پاکستانی امریکن تھے اور یقیناً ایوان صدر کے وزیٹنگ لاگ میں میرا نام ضرور ہوگا ، یوسف گیلانی کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی اس لیے انہوں نے اس میٹنگ میں کچھ کھایا پیا بھی نہیں لیکن جب میں وہاں سے واپس آنے لگی تو انہوں نے مجھے گلے لگایا اور تو ان کا مجھے گلے لگانا بہت ہی نازیبا تھا ۔ مخدوم شہاب الدین بہت ہی دلچسپ انسان لگے اور جب بھی ہم کہیں جاتے تو میں بہت انجوائے کرتی تھی لیکن ایک دفعہ ایسا ہوا کہ انہوں نے میرے کندھے اور پیٹھ پر ہاتھ پھیرا ۔ سنتھیا رچی نے کہا کہ اسامہ بن لادن کے واقعے کے بعد میرے ورک ویزا کے لئے مجھے وزیر داخلہ کی مدد کی ضرورت تھی ، میری ان سے جان پہچان وزیر صحت کے توسط سے تھی انہوں نے مجھے منسٹرانکلیو بلالیاتاکہ ویزے کے حوالے سے بات ہوسکے ، جب وہاں پہنچی تو وہ بہت والہانہ انداز سے ملے ،ان کے کمرے میں ایک بڑا گلدستہ تھا ان کی انگریزی بہت لمٹیڈ تھی، انہوں نے مجھے ڈرنکس آفر کی اور کہا آپ کے لئے ایک گفٹ بھی ہے ،مجھے سمجھ نہیں آئی گفٹ کا ویزے سے کیا لینا دینا ، ڈرنک پینے کے دوران سر چکرانا شروع ہوگیا ، میں نیم بیہوشی میں تھی ، ان کے ڈرائیور نے گاڑی میں بیٹھایا کیوں کہ میری حالت بہت خراب تھی،مجھے کہا گیا کہ تم جس این جی او کے ساتھ کام کر رہی ہو اس میں چونکہ مسائل ہو رہے ہوں تو اس کو چھوڑ دو اعظم خان سواتی کی بیٹی فرحانہ سواتی اس این جی او کو چلا رہی تھی اور اعظم خان سواتی ان دنوں پی ٹی آئی کو جوائن کرنے جارہے تھے تو مجھے اندازہ ہوا کہ پیپلز پارٹی مجھے پی ٹی آئی سے دور رکھنا چاہتی ہے اور مجھے وزیر داخلہ نے واضح طور پر کہا کہ میں وہ این جی او چھوڑ دوں کیوں کہ امریکا اعظم خان سواتی کے خلاف ٹیکس چوری کی تحقیقات کرا رہا ہے انہوں نے مجھے دو ہزار پاؤنڈ دئیے اور کہا کہ اس سے اپنا خرچہ پوا کروں اور یہ بھی کہ وہ نئی ملازمت ڈھونڈنے میں میری مدد کریں گے، ایسا نہیں ہوا کہ میں نے وہ پیسے اپنے ہاتھوں سے اٹھا لیے ہوں بلکہ ان کے ڈرائیور نے یہ تمام چیزیں میرے ساتھ گاڑی میں رکھیں جو موبائل انہوں نے مجھے دیا تھا وہ میری جاسوسی کے لئے استعمال ہوا اور وہ دو ہزار پاؤنڈ کافی عرصے تک میرے ٹیبل پر پڑے رہے۔وہ پاکستانی روپے یا ڈالرز نہیں تھے بلکہ پاؤنڈز تھے۔ سنتھیا رچی نے کہا کہ میں کبھی بھی کسی جگہ سے نکالی نہیں گئی ، پختون تحفظ موومنٹ کا دعویٰ یہ ہے کہ وہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی جارہی ہے ان کے اس دعویٰ کی بھی تحقیقات ہونی چاہیے اگر ان کا دعویٰ درست ہے تو اس پر ایکشن ہونا چاہیے ۔ سنتھیا رچی کا کہنا تھا کہ ن لیگ والے بھی کافی عرصے سے مجھے دھمکا رہے ہیں انہوں نے میرا آئیڈیا امرجنگ پاکستان چوری کیا ہے پاکستان کی مثبت تصویر پیش کرنا چاہتی تھی جس پر فلم بنا رہی تھی ۔ میرا بزنس ویزہ ہے اور میں نے ہمیشہ بزنس ویزہ پر کام کیا ہے میرا پہلا ویزہ ٹورسٹ ویزہ تھا، ایجنسیاں اپنا کام کرنا جانتی ہیں فوج کو بھی پتہ ہے انہوں نے کیسے کام کرنا ہے ۔ سنتھیا رچی نے مزید کہا کہ میں ایم کیو ایم ، پی ٹی آئی ، جماعت اسلامی ، این پی اے کے لوگوں سے بھی ملی ہوں میں سیاسی جماعتوں کے بہترین لوگوں سے بھی ملی ہوں اور کچھ اور لوگوں سے بھی ملی ہوں۔ strategic communication کی consultantسروسز تھیں یہ بہت عرصے پہلے کی بات ہے دس سال پہلے مجھے strategic communication consultant کی جاب ملی ۔میں نے کبھی خود کو صحافی نہیں کہا نہ میں نے خود پر ویلاگر یا فلم میکر کا لیبل لگایا ہے یہ سب دوسرے لوگ لگاتے ہیں میں توصرف سچ کی تلاش میں نکلی ہوں ۔میں دو ہزار پندرہ سے کام کر رہی ہوں کیا آپ نے میری کوئی فلم نہیں دیکھی میں دو ہزار پندرہ سے اپنے ذاتی پیسوں سے پاکستان کا ایک مثبت بیانیہ پیش کرنے کی کوشش کر رہی ہوں مجھے ادھر کے لوگ پسند ہیں کچھ برسوں میں پاکستان میں نا مساعد حالات اور دہشتگردی کا مقابلہ کیا ہے میں نے اس کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ۔ میرا پہلا ویزا پی پی نے اسپانسر کیا جس کے دوارن میں humanity hope کے لیے کام کرتی رہی ۔ یہ این جی او اعظم سواتی کی صاحب زادی کی تھی اسکے بعد میں پاکستان دوبارہ دو ہزار پندرہ میں آئی ۔ میں نیکٹا اور سی ٹی ڈی اور کے پی آرکیو لاجی ڈپارٹ منٹ کے ساتھ مختلف پراجیکٹس پر کام کرتی رہی ہوں پاکستان کے اداروں کے پاس میرے مکمل کوائف موجود ہیں میں کوئی سیاست دان نہیں اور میری ایک ذاتی زندگی ہے میں ٹیکس کے پیسے پر نہیں رہتی اس لیے عوام کو جوابدہ نہیں ہوں میں پاکستان کے قوانین کے تحت اپنے آپ کو جوابدہ سمجھتی ہوں مگر میں خود کو کسی کو ہراساں کرنے کی اجازت نہیں دوں گی۔ میں نے جب دو ہزار دس میں سوشل میڈیا اسٹریٹجی پرکام شروع کیا اور عمران خان نے میری بات سننا چاہا اکثر مردوں کو یہ بات ناگوار گزری میں ان کی سوشل میڈیا ٹیم کی مدد کرنا چاہتی تھی ۔ میری عمران خان سے پہلی ملاقات ہیوسٹن میں ہوئی جب وہ اپنی فاؤنڈیشن کے لیے چندہ اکھٹا کرنے آئے میں عمران خان سے ملاقات کی خواہش مند تھی ۔ نہ ہی میری کرکٹ میں دلچسپی تھی میں عمران خان کے ساتھ رابطہ میں رہی اور وہ میرا ٹیلینٹ پہنچانتے تھے۔ کیا آپ تینوں افراد کے خلاف قانونی کاروائی کریں گی اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جی میرا یہ ہی ارادہ ہے ۔ کیا رحمان ملک نے اس واقعہ کے بعد آپ سے رابطہ کیا اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا جی کیا اور انہوں نے مجھے کہا کہ میں بہت خوبصورت ہوں ۔ سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے اس حوالے سے کہا کہ جو انہوں نے الزامات لگائے میں نے اس کا جواب دیا بلاول بھٹو نے اپنی پارٹی کو کہا جیسے یوسف گیلانی نے بڑا موثر طریقے سے دفاع کیا ہے آپ کو بھی ایسے کرنا چاہیے۔ انہوں نے مجھ پر الزام لگایا کہ دست درازی کی میں صرف یہ پوچھنا چاہ رہا ہوں کہ اس زمانے میں دہشت گردی کی وجہ سے پریذڈینسی میں سخت سیکیورٹی تھی اس وقت یہ وہاں کیا کر رہی تھیں اگر آئی بھی ہوں گی مجھے یاد نہیں ہے میں انہیں پہچانتا بھی نہیں ہوں وزیراعظم کو بہت سے لوگ ملتے ہیں لیکن یہ کہنا کہ اس پارٹی کے اندر میں نے انہیں گلے لگایا ایسا کچھ نہیں ہوا۔ فیصل کنڈی نے ان کے اونر میں رسپشن کروایا ہے زلفی جو ڈپلومیٹ ہیں ان کے گھر پر اس گھر پر جب میں گیا تو یہ بھی آئی ہوئیں تھیں دوسری کئی مہمانوں کے ساتھ وہاں ان سے ہیلو ہائے ہوئی میری طبیعت ٹھیک نہیں تھی میرے بیٹے کو کہا کہ آپ کے والد شریف، معزز آدمی ہیں اور ان کی طبیعت میری طرف سے پوچھ لیں۔ میرا بیٹا بینظیر سے اٹیچ ہے اور جب انہوں نے بینظیر بھٹو کے بارے میں نازیبا بات کی تو اس پر بیٹے نے ردِعمل دیتے ہوئے کہا کہ میں ان کے خلاف سائبر کرائم میں جاؤں گا اس وجہ سے انہوں نے میرے خلاف ری ایکشن دیا ہے۔لیگل ایکشن کے حوالے سے پارٹی فیصلہ کرے گی۔ سابق وفاق وزیر صحت مخدوم شہاب الدین نے کہا کہ میں حلفیہ کہنا چاہوں گا کہ ان کے تمام الزامات غلط ہیں یہ ساری باتیں یہ کسی کے کہنے پر کر رہی ہیں۔ تحقیقات ہونی چاہئیں۔ فی الحال میں تو کوئی لیگل ایکشن نہیں لوں گا لیکن ہماری پارٹی ضرور سوچ رہی ہے اس بارے میں جو اتنی غلیظ باتیں کی ہیں بینظیر کے بارے میں۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں