ووہان (پی این آئی)ووہان کے مرکزی ہسپتال ووہان سینٹرل ہاسپیٹل کے ایمرجنسی ڈیپارٹمنٹ کی سربراہ ڈاکٹر آئی فین کو 30 دسمبر کو وہ رپورٹ مل گئی جس کا انہیں آٹھ دن سے انتظار تھا۔ان کے شعبے میں پچھلے کئی دن سے نمونیا کے ایسے مریض آ رہے تھے جن پر دوا بے اثر تھی اور میڈیکل کی کتابیں اس بارے میں
خاموش دکھائی دیتی تھیں۔ دو ہفتے پہلے 16 دسمبر کو آئی فین کے پاس ایک ایسا مریض آیا تھا جس کو تیز بخار تھا۔ یہ شخص ووہان کی مچھلی مارکیٹ میں کام کرتا تھا۔ جب علاج کا ہر طریقہ ناکام ہو گیا تو ڈاکٹر فین نے 22 دسمبر کو مریض کے پھیپھڑوں سے پانی نکال کر اسے لیبارٹری بھجوا دیا۔30 دسمبر کو شام چار بجے جب رپورٹ آئی تو اسے دیکھ کر سردی کے باوجود آئی فین کے پسینے چھوٹ گئے۔ وہ خاصی دیر تک کاغذ پر لکھے حروف کو گھورتی رہیں، اور بار بار پڑھ کر خود کو یقین دلاتی رہیں کہ ان کی آنکھیں غلطی نہیں کر رہیں۔انہوں نے فوری طور پر ہسپتال کے پبلک ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کو فون کر مطلع کر دیا۔ اس کے بعد ڈاکٹر فین نے رپورٹ میں لکھے الفاظ ’سارس کرونا وائرس‘ پر سرخ مارکر سے دائرہ لگایا اور اپنے موبائل سے اس کی تصویر لے کر اپنے ایک کلاس فیلو ڈاکٹر کو بھیج دیا جو ایک اور ہسپتال میں کام کرتا تھا۔اسی رات یہ تصویر ووہان کے میڈیکل حلقوں میں پھیل گئی۔ جن لوگوں کو یہ تصویر ملی، ان میں ڈاکٹر لی وین لیانگ بھی شامل تھے۔ یہی تصویر نئے کرونا وائرس کے وجود کے اولین شواہد میں سے ایک ہے۔رات دس بج کر 20 منٹ پر ڈاکٹر آئی فین کو ہسپتال کی انتظامیہ کی جانب سے فون آ گیا کہ وہ لوگوں میں بےچینی اور افراتفری پھیلا رہی ہیں ہے۔ انہیں سختی سے منع کیا گیا کہ وہ اس بارے میں کسی سے بات نہ کریں۔دو دن بعد صبح آٹھ بجے ڈاکٹر فین کی انضباطی کمیٹی کے سامنے پیشی ہوئی۔ انہیں شدید تنقید اور ڈانٹ ڈپٹ کا نشانہ بنایا گیا۔ ’آپ شعبہ ایمرجنسی کی سربراہ ہیں۔ کیا آپ کو افواہیں پھیلانے کے علاوہ کوئی اور کام نہیں ہے؟‘ اور یہ کہ ’آپ ہسپتال کا نام ڈبو رہی ہیں۔‘ڈاکٹر فین کو حکم دیا گیا کہ وہ ہسپتال کے عملے کے دو سو ارکان کے پاس جائیں اور فرداً فرداً ان کے سامنے اعتراف کریں یہ محض افواہ تھی۔ ڈاکٹر فین یہ سن کر سکتے میں آ گئیں۔ ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ انہوں نے کون سے قانون کی خلاف ورزی کی ہے۔ آخر جذبات میں آ کر انہوں نے کمیٹی سے کہہ دیا کہ وہ اپنے کام کے لیے موزوں نہیں ہیں اور اگر انہوں نے اتنا بڑا جرم کر دیا ہے تو انہیں گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا جائے۔ڈاکٹر فین اس رات لڑکھڑاتی ہوئی اپنے گھر میں داخل ہوئیں۔ ان کا دوسرا بچہ بہت چھوٹا تھا۔ انہوں نے اپنے خاوند سے کہا کہ اگر مجھے کچھ ہو گیا تو اس بچے کو تمہیں کو پالنا ہو گا۔ اس کا
مطلب یہ ہے کہ انہیں خدشہ تھا کہ شاید انہیں قید کر لیا جائے گا۔ ڈاکٹر فین کو اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ مرض ایک شخص سے دوسرے میں پھیل رہا ہے، اس لیے انہوں نے تمام عملے کو ماسک اور دستانے پہننے کی تاکید کر دی۔ جب انہوں نے عملے کے ایک رکن کو بغیر ماسک پہنے گھومتے دیکھا تو اسے سخت ڈانٹ پلائی۔ ڈاکٹر فین کا 30 دسمبر کا میسج ایک اور ڈاکٹر کو بھی ملا تھا جن کا نام لی وین لیانگ تھا۔ وہ آنکھوں کے ڈاکٹر تھے لیکن انہیں اندازہ ہو گیا تھا کہ صورتِ حال نازک ہے، اس لیے انہوں نے ایک چیٹ گروپ کے ذریعے اپنے ساتھی ڈاکٹروں کو خبردار کیا کہ یہ وائرس ایک انسان سے دوسرے کو پھیل رہا ہے اس لیے وہ محتاط رہیں اور ایسے مریضوں کا علاج کرتے وقت حفاظتی لباس پہنیں۔ڈاکٹر لیانگ نے ایک پیغام میں لکھا: ’کرونا وائرس کی تصدیق ہو گئی ہے۔ اپنے گھر والوں اور رشتے داروں کا خیال رکھیں۔‘چار دن بعد ڈاکٹر وین لیانگ کو سات دیگر ڈاکٹروں کے ہمراہ پولیس کے سامنے پیش ہونے کا حکم ملا۔ ان سے کہا گیا کہ جھوٹی افواہیں پھیلا رہے ہیں جن سے معاشرے کا نظم و ضبط خراب ہو رہا ہے۔ بعد میں ڈاکٹر لیانگ خود کرونا وائرس کا شکار ہو کر چھ فروری کو صرف 34 سال کی عمر میں چل بسے۔ مرنے کے بعد انہیں قومی ہیرو قرار دیا گیا۔ڈاکٹر لیانگ اور ڈاکٹر فین کے علاوہ ووہان کے دوسرے بہت سے ڈاکٹروں کو بھی اندازہ ہو گیا تھا کہ حالات قابو سے باہر ہوتے چلے جا رہے ہیں کیوں کہ کرونا کے مریض ہر ہسپتال میں آ رہے تھے۔ 31 دسمبر کو شہر میں کرونا وائرس کے 266 مصدقہ کیس سامنے آ چکے تھے۔ یکم جنوری کو یہ تعداد بڑھ کر 381 ہو گئی۔ اس کے بعد آنے والے ہر دن سینکڑوں مریض شہر کے تمام علاقوں میں پھیلنے لگے۔لیکن ووہان
کے حکام نے ڈاکٹر لیانگ کی وارننگ کے باوجود جو بیانیہ ترتیب دیا وہ یہ تھا کہ یہ وائرس صرف مچھلی مارکیٹ سے متعلق لوگوں کو متاثر کر رہا ہے، یہ کسی جانور سے انسان میں منتقل ہوا ہے، اور ایک انسان سے دوسرے کو نہیں لگتا۔ اس کا سدِباب کرنے کے لیے انہوں نے مچھلی منڈی بند کر دی اور اس شتر مرغ کی طرح مطمئن ہو کر بیٹھ گئے جو ریت میں سر چھپا کر سمجھتا ہے کہ خطرہ ٹل گیا ہے۔ تین ہفتوں تک وہ لوگوں کو یہی یقین دہانی کرواتے رہے کہ پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں ہے اور انتظامیہ اس مسئلے کا قلع قمع کرنے میں کامیاب ہو چکی ہے۔وبائی امراض کے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہی وہ تین ہفتے ہیں جن میں اگر چینی حکام ٹال مٹول اور لیت و لعل سے کام لینے کی بجائے مناسب اقدامات کرتے تو آج دنیا اس تباہی کے دہانے پر نہ کھڑی ہوتی۔اس دوران ووہان میں ایک نئی وبا پھوٹنے کی خبریں سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگی تھیں۔ ان پر بند باندھنے کے لیے حکام نے ایک بیان جاری کیا: ’اب تک کی تحقیقات سے انسان سے انسان تک منتقلی کا کوئی شواہد نہیں ملے۔۔۔ بیماری قابو میں ہے۔‘پاکستان میں بہت سے لوگ ووہان کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے، لیکن یہ چین کے اہم ترین شہروں میں سے ایک ہے۔ ایک کروڑ دس لاکھ سے زیادہ آبادی والا یہ شہر وسطی چین کا معاشی، تجارتی، صنعتی اور مواصلاتی گڑھ بھی ہے۔ اس شہر کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ 1927 اور 1937 میں چین کا دارالحکومت بھی رہ چکا ہے۔یہ شہر پورے چین کے
ساتھ سڑکوں اور ریل کے نظام کے ساتھ اور پوری دنیا سے فضائی ٹریفک کے ذریعے منسلک ہے۔ اس شہر کے بین الاقوامی رابطوں کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ دنیا کی فارچیون 500 کمپنیوں میں سے 230 نے اس شہر میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے اور اس شہر کی مجموعی پیداوار 22.4 ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔س کے باوجود حکام نے اس شہر ایک موذی وائرس کو ہفتوں تک بلا روک ٹوک پھیلنے کا بھرپور موقع فراہم کیا۔ ادھر سائنس دان اپنے کام میں لگے ہوئے تھے۔ دو جنوری کو ایک سرکاری لیبارٹری کے سائنس دانوں نے اس نئے وائرس کی مکمل جینیاتی ساخت معلوم کر لی تھی لیکن اسے دنیا کے ساتھ شیئر کرنے میں انہوں نے 12 جنوری تک انتظار کرنا مناسب سمجھا۔ سات جنوری کو صدر شی جن پنگ کو آن بورڈ لیا گیا جنہوں نے خود کنٹرول سنبھال لیا، لیکن اس بات کا اعلان فروری تک نہیں کیا گیا۔اس دوران چین کی بیماریوں کی روک تھام کے ادارے سی ڈی سی کا عملہ بھی ووہان پہنچ گیا تھا۔ لیکن انہوں نے بھی خطرے کی نوعیت کو گھٹا کر پیش کیا۔ 15 جنوری کو سرکاری ٹیلی ویژن کو بتایا گیا: ’محتاط سکریننگ اور تجزیے کے بعد ہم اس تازہ ترین نتیجے تک پہنچے ہیں کہ انسان سے انسان کو منتقلی کا خطرہ کم ہے۔‘ادھر شہر کے ہسپتالوں میں کرونا وائرس کے مریض دم توڑنے لگے، لیکن ناقابلِ یقین طور پر حکام نے 18 جنوری کو چینی نئے سال کی
ضیافت منعقد کروانے کی اجازت دے دی جس میں 50 ہزار سے زیادہ خاندانوں نے حصہ لیا۔ اس دعوت کے دوران کھانے شیئر کیے جاتے ہیں اور تصاویر بنوائی جاتی ہیں۔چونکہ نئے سال کی آمد آمد تھی، اس لیے تعطیلات کے سلسلے میں لاکھوں لوگ ووہان چھوڑ کر اپنے اپنے علاقوں اور اپنے اپنے ملکوں کو روانہ ہو گئے اور ساتھ ہی کرونا وائرس کا تحفہ لیتے گئے۔جلد ہی چین کے دوسرے شہروں میں بھی اس بیماری کی اطلاعات سامنے آنے لگیں۔اسی ضیافت کے دن وبائی بیماریوں کے ماہرین کی ایک ٹیم ووہان پہنچ گئی۔ اس میں ہانگ کانگ کے ڈاکٹر ژونگ بھی شامل تھے جنہوں نے اس سے قبل 2003 میں سارس کی وبا کو کنٹرول کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ڈاکٹر ژونگ کو معاملے کی تہہ تک پہنچنے میں دیر نہیں لگی۔ انہوں نے نوری کو ٹیلی ویژن پر آ کر پہلی بار بتایا کہ وائرس انسانوں کے درمیان پھیل رہا ہے۔ انہوں نے اعلیٰ چینی قیادت کو صورتِ حال کی سنگینی سے آگاہ کرتے ہوئے وبا پر قابو پانے کے لیے جو تجاویز پیش کیں ان میں سے ایک ووہان شہر کا لاک ڈاؤن بھی شامل تھا۔ اس پر عمل کرتے ہوئے تین دن بعد صدر شی جن پنگ نے 23 جنوری کو لاک ڈاؤن کا اعلان کر دیا۔اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ڈاکٹر فین کہتی ہیں کہ لاک ڈاؤن سے دو دن قبل 21 جنوری کو صرف ان کےہسپتال کی ایمرجنسی میں 655 ایسے مریض آئے جو ممکنہ طور پر کرونا
وائرس سے متاثر تھے۔ مریضوں کی بھیڑ کا یہ عالم تھا کہ ایمرجنسی کے سامنے کی سڑک بلاک ہو کر رہ گئی۔ اس وقت ہسپتال کسی جنگی محاذ کا سا نظارہ پیش کر رہا تھا۔ اب جب کہ چین کرونا وائرس کی وبا پر قابو پا کر دنیا کی تحسین کا مرکز بن گیا ہے، بہت سے ماہرین سوال اٹھا رہے ہیں کہ چین ووہان میں ہونے والی ہلاکتوں کی اصل تعداد چھپا رہا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ وہاں اس سے کہیں زیادہ لوگ ہلاک ہوئے ہیں جتنا اس نے دنیا کو بتایا ہے۔ اس کی تفصیل اوپر ویڈیو میں دیکھی جا سکتی ہے۔ ڈاکٹر فین اب بھی اسی ہسپتال میں کام کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ 21 فروری کو انہیں ایک اور کمیٹی کے سامنے پیش ہونا پڑا۔ باتوں باتوں میں ان سے پوچھا گیا کہ وہ کیا سمجھتی ہیں کہ انہیں جس انضباطی کارروائی کا سامنا کرنا پڑا وہ غلط تھی؟وہ توقع کر رہی تھیں کہ ان سے معذرت کی جائے گی، مگر ایسا کچھ نہیں ہوا اور چند رسمی باتوں کے بعد یہ میٹنگ نشستن و گفتن و برخاستن ہو گئی۔ڈاکٹر فین کو اب ایک پچھتاوے نے گھیر رکھا ہے۔ وہ کہتی ہیں: ’اگر مجھے اندازہ ہوتا کہ آگے کیا ہونے والا ہے تو میں اس سرزنش کو بھاڑ میں جھونکتی اور اس وبا کے بارے میں ہر کسی کو بتاتی پھرتی۔‘ڈاکٹر فین کا یہ انٹرویو بھی چینی ویب سائٹوں سے ڈیلیٹ کر دیا گیا ہے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں