برمنگھم (خادم حسین شاہین) برطانیہ میں کرونا وائرس کی روک تھام کے متعلق حکومت برطانیہ کے حالیہ اقدامات نے عوام میں تشویش اور افراتفری پھیلا دی ہے۔عوام نے بے تحاشہ شاپنگ کر لی ہے حتی کہ بڑی بڑی سپر مارکیٹ میں بھی کھانے پینے کی اشیاء کم پڑتی جا رہی ہیں ۔ عالم یہ ہے کہ سپر مارکیٹس کھلنے
سے پہلے ہی باہر خریداروں کی ایک لمبی لائن لگ جاتی ہے اور پھر یہ کہ محدود تعداد میں خریداری کی اجازت دی جاتی ہے تاکہ سب لوگ مستفید ہو سکیں۔اور تو اور خریدار آپس میں چھینا جھپٹی بھی کرتے ہیں اور کچھ بے چارے تو مایوس ہی لوٹ جاتے ہیں۔میں نے برطانیہ میں ایسا نظارہ اس سے پہلے نہیں دیکھا۔یہاں ہر چیز ہر وقت دستیاب ہے۔مگر کرونا نے لوگوں کو اتنا ڈرا دیا ہے کہ ہر طرف بے یقینی کی کیفیت ہے۔خصوصا بچے اور خواتین سب سے زیادہ پریشان ہیں۔سکولوں ، کالجوں کی بندش کے ساتھ ساتھ ہوٹلوں ، ہسپتالوں اور بڑے بڑے اجتماعات پر بھی پابندیاں لگ چکی ہیں اور کچھ پر لگانے کے متعلق سوچا جا رہا ہے۔ یہ تو ایک عمومی صورت حال ہے لیکن برطانیہ میں آباد کشمیری اور پاکستانی کمیونٹی بالخصوص اور تمام مسلمان بالعموم اس لئے بھی پریشان ہیں کہ رمضان کریم کی آمد آمد ہے اورمساجد بے رونق ہو رہی ہیں۔علماء کرام شرعی اور انتظامی امور پر حکومت اور انتظامیہ سے تعاون کرنے پر عوام کو تیار کررہے ہیں۔مختلف آوازیں آ رہی ہیں جس سے عوام مزید پریشانی میں مبتلا ہیں ۔زیادہ تر لوگ گھروں سے باہر نکلنے اور مسجدوں میں جانے سے کترا رہے ہیں۔مساجد انتظامیہ کی طرف سے بھی یہ اعلانات کئے جا چکے ہیں کہ احتیاط علاج سے بہتر ہے ۔ مسجد میں آئیں تو وضو کر کے آئیں۔مسجد میں موجود اشیاء مثلاً تولیے وغیرہ کو بھی نہ چھوئیں چاہے وہ دھلے ہوئے ہی کیوں نہ ہوں ۔اس طرح کی باتیں لوگوں میں مزید بے چینی پیدا کر رہی ہیں۔کاروباری لوگ الگ پریشان ہیں کہ پیچھے سے سپلائی بند ہو رہی ہے۔بیچنے کے لئے کچھ ہے نہیں۔شیلف خالی پڑے ہوئے ہیں۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں