بھارت نے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پابندیوں کی دھمکیوں کے باوجود روس سے تیل کی درآمدات جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ عالمی خبر رساں ادارے رائٹرز اور نیو یارک ٹائمز کی رپورٹس کے مطابق، بھارتی حکومت کی پالیسی میں فی الحال کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے۔
بھارتی حکومت کے دو اعلیٰ حکام نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ روس کے ساتھ طویل المدتی معاہدوں کی موجودگی کے باعث درآمدات فوراً بند کرنا ممکن نہیں۔ ان کے مطابق، حکومت نے ملکی تیل کمپنیوں کو روسی تیل کی درآمد روکنے کی کوئی ہدایت جاری نہیں کی۔
بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے پریس بریفنگ میں کہا کہ بھارت اپنی توانائی کی ضروریات کے لیے مارکیٹ میں دستیاب مواقع، قیمتوں اور عالمی حالات کو مدنظر رکھتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ روس کے ساتھ بھارت کے تعلقات “مستحکم اور آزمودہ شراکت داری” پر مبنی ہیں اور نئی دہلی کے دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات کو کسی تیسرے فریق کے تناظر میں نہیں دیکھنا چاہیے۔
روس بھارت کی کل تیل درآمدات کا تقریباً 35 فیصد فراہم کر رہا ہے، جس کے بعد عراق، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات آتے ہیں۔ دستیاب اعداد و شمار کے مطابق، بھارت دنیا میں تیل کا تیسرا سب سے بڑا درآمد کنندہ اور صارف ہے، اور جنوری سے جون 2025 کے دوران روزانہ 17 لاکھ 50 ہزار بیرل تیل روس سے درآمد کرتا رہا ہے — جو گزشتہ برس کے مقابلے میں 1 فیصد زیادہ ہے۔
گزشتہ ماہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹروتھ سوشل پر پوسٹ میں اشارہ دیا تھا کہ روسی تیل اور اسلحے کی خریداری پر بھارت کو مزید امریکی پابندیوں کا سامنا ہو سکتا ہے۔ تاہم اس کے برعکس، بھارتی حکومت نے روسی درآمدات جاری رکھنے کا عندیہ دیا ہے۔
دوسری جانب، روسی اداروں کی اکثریتی ملکیت والی بھارتی ریفائنری نایارا انرجی کو حال ہی میں یورپی یونین کی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ کمپنی کے سابق سی ای او نے استعفیٰ دے دیا، جس کے بعد سرگئی ڈینیسوف کو نیا چیف ایگزیکٹو مقرر کیا گیا۔ پابندیوں کے باعث کمپنی کے تین تیل بردار جہاز اب تک اپنا مال اتارنے سے قاصر رہے ہیں۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں