امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل کی تازہ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ مئی میں ایک بریفنگ کے دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اٹارنی جنرل پام بونڈی نے آگاہ کیا کہ ان کا نام ارب پتی مجرم جیفری ایپسٹین سے متعلق امریکی محکمہ انصاف کی دستاویزات میں متعدد بار آیا ہے۔ یہ اطلاع 7 جولائی کو محکمہ انصاف کی جانب سے “ایپسٹین فائلز” جاری نہ کرنے کے فیصلے سے کئی ہفتے قبل دی گئی تھی۔
محکمہ انصاف نے بدھ کے روز اپنے ایک بیان میں تصدیق کی کہ پام بونڈی اور نائب اٹارنی جنرل ٹوڈ بلانش نے ٹرمپ سے ایک “معمول کی بریفنگ” کے دوران ایپسٹین فائلز پر بات کی، تاہم بریفنگ کے درست وقت کی وضاحت نہیں کی گئی۔
رپورٹ کے مطابق صدر ٹرمپ کو بتایا گیا کہ ایپسٹین سے متعلق ان فائلز میں کئی دیگر بااثر شخصیات کے نام بھی شامل ہیں۔ تاہم، یہ مواد زیادہ تر غیر مصدقہ معلومات اور افواہوں پر مبنی ہے، خاص طور پر اُن افراد سے متعلق جو ماضی میں ایپسٹین کے ساتھ تعلق رکھتے تھے، جن میں ٹرمپ بھی شامل ہیں۔ وال اسٹریٹ جرنل نے واضح کیا کہ ان فائلز میں کسی کا نام آنا لازمی طور پر کسی جرم کا ثبوت نہیں سمجھا جاتا۔
ایپسٹین اسکینڈل سے جڑی فائلز جاری نہ کرنے کے فیصلے پر ٹرمپ کے حامی، خاص طور پر MAGA گروپ، کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا۔ اس عوامی دباؤ کے بعد، گزشتہ ہفتے صدر ٹرمپ نے پام بونڈی کو گرینڈ جیوری کی کارروائی کے ٹرانسکرپٹس جاری کرنے کی ہدایت دی، جو ایپسٹین اور اس کی ساتھی غزلین میکسویل کے خلاف وفاقی تحقیقات سے متعلق ہیں۔
یاد رہے کہ ٹرمپ اور ایپسٹین ماضی میں قریبی دوست رہے تھے، لیکن 2019 میں ایپسٹین کی جیل میں مبینہ خودکشی سے قبل ان کے تعلقات ختم ہو چکے تھے۔ ایپسٹین کے دیگر بااثر دوستوں میں برطانوی شہزادہ پرنس اینڈریو بھی شامل ہیں۔
اس معاملے پر جب CNBC نے وائٹ ہاؤس کے کمیونیکیشن ڈائریکٹر اسٹیون چیونگ سے مؤقف جاننے کی کوشش کی، تو اُنہوں نے کہا، “صدر ٹرمپ نے ایپسٹین کو مار-اے-لاگو کلب سے نکال دیا تھا کیونکہ وہ نامناسب رویہ اختیار کیے ہوئے تھا۔” انہوں نے مزید کہا، “یہ تمام خبریں جعلی ہیں، جنہیں ڈیموکریٹس اور لبرل میڈیا پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں، بالکل ویسے ہی جیسے ‘روس گیٹ اسکینڈل’ گھڑا گیا تھا، جس میں آخرکار ٹرمپ ہی سچ پر نکلے۔”
بدھ کے روز ایک مشترکہ بیان میں پام بونڈی اور ٹوڈ بلانش نے کہا کہ محکمہ انصاف اور ایف بی آئی نے ایپسٹین فائلز کا مکمل جائزہ لینے کے بعد 6 جولائی کے میمو میں طے کیا کہ ان فائلز میں ایسی کوئی چیز موجود نہیں جو مزید تحقیقات یا قانونی کارروائی کا تقاضا کرے۔ ان کا کہنا تھا کہ گرینڈ جیوری کی کارروائی کو عوام کے سامنے لانے کی درخواست دائر کر دی گئی ہے۔
گزشتہ ہفتے جب ایک صحافی نے ٹرمپ سے سوال کیا کہ کیا پام بونڈی نے انہیں بتایا تھا کہ ان کا نام فائلز میں ہے، تو ٹرمپ نے جواب دیا، “نہیں، ایسا کچھ نہیں بتایا گیا۔ صرف مختصر بریفنگ دی گئی تھی۔”
ٹرمپ نے مزید الزام لگایا کہ یہ فائلز ایف بی آئی کے سابق ڈائریکٹر جیمز کومی، اور اوباما و بائیڈن حکومتوں کی جانب سے “گھڑی” گئی ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ حالیہ دنوں محکمہ انصاف نے مین ہٹن کی وفاقی پراسیکیوٹر مورین کومی کو برطرف کر دیا، جو جیمز کومی کی بیٹی ہیں اور ایپسٹین و میکسویل کے خلاف قانونی کارروائیوں کی نگرانی کر چکی ہیں۔
وال اسٹریٹ جرنل نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی دعویٰ کیا کہ 2003 میں ٹرمپ نے ایپسٹین کی 50ویں سالگرہ کے موقع پر ایک فحش نوعیت کا خط بھیجا تھا، جو مبینہ طور پر میکسویل کی فرمائش پر لکھا گیا۔ اس خط میں ایک برہنہ عورت کی تصویر پر “ڈونلڈ” کے دستخط درج تھے۔
اس دعوے پر ٹرمپ نے سخت ردعمل دیا اور کہا، “یہ مکمل طور پر جعلی ہے۔ میں نے کبھی کسی عورت کی ایسی تصویر نہیں بنائی۔ یہ سب من گھڑت ہے۔”
ان الزامات کے بعد، صدر ٹرمپ نے میڈیا ٹائیکون روپرٹ مرڈوک، نیوز کارپوریشن، ڈاؤ جونز اینڈ کمپنی، اور اس رپورٹ میں شامل صحافیوں پر کم از کم 10 ارب ڈالر ہرجانے کا مقدمہ دائر کر دیا ہے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں