امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے تمام تجارتی شراکت داروں پر ریسیپروکل (جوابی) ٹیرف عائد کرنے کے اعلان نے عالمی سطح پر بے چینی اور خدشات کو جنم دیا ہے۔ یہ اقدام اس وقت سامنے آیا ہے جب صدر ٹرمپ کی بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات ہوئی ہے۔
ٹرمپ کے اس فیصلے کا مقصد امریکہ اور دیگر ممالک کے درمیان تجارتی عدم توازن کو ختم کرنا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ دوسرے ممالک امریکی مصنوعات پر زیادہ ڈیوٹیز عائد کرتے ہیں جبکہ امریکہ اپنی معیشت کو زیادہ کھلا رکھتا ہے۔ ماہرین کے مطابق بھارت امریکی مصنوعات پر اوسطاً ساڑھے نو فیصد ٹیرف عائد کرتا ہے جبکہ امریکہ بھارتی اشیا پر صرف تین فیصد ٹیرف لگاتا ہے۔
این ڈی ٹی وی کے مطابق بھارت پر اس فیصلے کے بڑے اثرات مرتب ہونے کا امکان ہے کیونکہ اس کی برآمدات زیادہ ٹیرف کے باعث مہنگی ہو سکتی ہیں۔ خاص طور پر غذائی مصنوعات، سبزیاں، ٹیکسٹائل، کپڑے، الیکٹریکل مشینری، جواہرات، دواسازی، آٹو موبائل، آئرن اور سٹیل کی صنعت بری طرح متاثر ہو سکتی ہے۔
صدر ٹرمپ نے بھارت کو تجارتی لحاظ سے ایک مشکل ملک قرار دیتے ہوئے کہا “بھارت میں کاروبار کرنا آسان نہیں کیونکہ وہاں ٹیرف بہت زیادہ ہیں۔ لیکن اب جو وہ ہم پر ٹیرف لگائیں گے ہم بھی ان پر وہی ٹیرف لگائیں گے، یہ ایک سادہ اور خوبصورت نظام ہے۔”
بھارت نے ممکنہ تجارتی تنازعات سے بچنے کے لیے 30 سے زائد امریکی مصنوعات پر ٹیرف کم کرنے اور دفاعی و توانائی کی امریکی مصنوعات کی درآمدات بڑھانے پر غور شروع کر دیا ہے۔ تاہم ماہرین کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات پیچیدہ ہیں اور ان فیصلوں کے اثرات طویل مدتی ہوں گے۔
تجارتی ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت، جاپان اور یورپی یونین ان ٹیرف پالیسیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہو سکتے ہیں۔ توقع ہے کہ یہ جوابی ٹیرف اپریل سے نافذ العمل ہو سکتے ہیں جس کے باعث بھارت کی معیشت پر بڑا بوجھ پڑ سکتا ہے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں