خاتون صحافی کو بھارت سے ہمدردی بہت بھاری پڑ گئی

بنگلہ دیش میں ایک خاتون صحافی کو بھارت سے ہمدرری مہنگی پڑ گئی، ڈھاکہ کے قلب میں لوگوں کے ایک گروپ نے ایک معروف خاتون صحافی کو گھیر لیا، خاتون صفائیاں دیتی رہیں، یہاں تک کہ پولیس کو آکر انہیں بچانا پڑا۔

یہ واقعہ بنگلہ دیشی دارالحکومت کے کاروان بازار علاقے میں اس وقت پیش آیا جب ٹی وی کی معروف شخصیت منی ساہا اپنے دفتر سے نکل رہی تھیں۔ ہجوم نے ساہا پر ہندوستانی ایجنٹ اور معزول وزیر اعظم شیخ حسینہ کے حامی ہونے کا الزام لگایا۔

مقامی میڈیا رپورٹس بتاتی ہیں کہ خاتون صحافی کی گاڑی کو ہجوم نے روکا اور الزامات لگائے۔ اس کے بعد ڈھاکہ میٹروپولیٹن پولیس نے مداخلت کی اور ساہا کو پولیس کی گاڑی میں ڈال دیا گیا، جبکہ آس پاس موجود بھیڑ نے ان کے خلاف نعرے لگائے۔

ڈھاکہ میٹروپولیٹن ڈیٹیکٹیو برانچ (ڈی بی) کے دفتر میں منتقل ہونے سے پہلے ساہا کو ابتدائی طور پر تیجگاؤں پولیس اسٹیشن لے جایا گیا تھا۔ جس نے آن لائن قیاس آرائیوں کو ہوا دی کہ انہیں گرفتار کر لیا گیا ہے۔تاہم، پولیس نے واضح کیا کہ سینئر صحافی کو حراست میں نہیں لیا گیا اور اتوار کی صبح انہیں رہا کر دیا گیا۔ پولیس نے مزید بتایا کہ اس دوران ساہا کو گھبراہٹ کا دورہ پڑا اور وہ بیمار ہوگئیں۔

ایک پولیس اہلکار نے بنگلہ دیشی خبر رساں ادارے ”ڈیلی آبزرور“ کو بتایا، “پولیس نے منی ساہا کو حراست میں نہیں لیا تھا۔ انہیں ان کے دفتر کے باہر کاوران بازار میں لوگوں کے گروپ نے گھیر لیا تھا۔ بعد میں تیجگاؤں پولیس حفاظتی وجوہات کی بنا پر انہیں ڈی بی آفس لے گئی۔’اہلکار نے مزید کہا کہ ساہا چار مقدمات میں ملزم ہیں اور انہیں ضمانت حاصل کرنے اور مستقبل کے پولیس سمن کی تعمیل کے لیے عدالت میں حاضر ہونا چاہیے۔

ساہا کو ہراساں کرنے والے افراد کے خلاف کارروائی کے بارے میں پولیس کی طرف سے کوئی بیان نہیں آیا ہے۔یہ واقعہ بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے ان کے حامی صحافیوں کے خلاف وسیع کریک ڈاؤن کا حصہ ہے۔ درجنوں صحافیوں کو ردعمل، تعصب کے الزامات اور قانونی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

نوبل انعام یافتہ محمد یونس کی زیرقیادت نگراں حکومت نے متعدد صحافیوں کی ایکریڈیٹیشن منسوخ کر دی ہے اور متعدد کے خلاف پولیس نے متعدد مقدمات درج کر لیے ہیں۔حالیہ ہفتوں میں پرتھم آلو اور ڈیلی سٹار جیسے سرکردہ اخبارات کے دفاتر کے باہر احتجاج بھی دیکھا گیا ہے۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں