ٹوکیو (پی این آئی)جاپان کے سابق وزیراعظم شنزو ایبے قاتلانہ حملے میں ہلاک ہوگئے۔ان کی عمر 67 سال تھی۔ سابق جاپانی وزیراعظم کو مغربی شہر نارا میں انتخابی مہم کی تقریر کے دوران گولی ماری گئی جس کے نتیجے میں وہ شدید زخمی ہوگئے،انہیں تشویشناک حالت میں ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئے، سیکیورٹی فورسز کی جانب سے شنزوایبے پر حملے کے فوری بعد ایک مشکوک شخص کو حراست میں بھی لیا گیا ۔
مقامی میڈیا کے مطابق بتایا گیا ہے کہ شنزو ایبے کو قاتلانہ حملے کے بعد دل کا دورہ بھی پڑا تھا۔حکام کے مطابق شنزوایبے کو دو گولیاں لگیں اور وہ ہسپتال میں زیر علاج تھے جہاں ان کی حالت تشویشناک تھی۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق جاپان کے سابق وزیراعظم زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے۔یاد رہے کہ شنزو ایبے پہلے 2006 سے 2007 اور پھر 2012 سے 2020 تک جاپان کے وزیراعظم رہے، وہ سب سے طویل عرصہ جاپان کے وزیراعظم رہے۔
اس سے قبل مقامی میڈیا نے رپورٹ کیا تھا کہ سابق جاپانی وزیر اعظم شنزو آیبے پر نارا کے علاقے میں انتخابی مہم کے دوران قانلانہ حملہ کیا گیا تھا جس میں گولی لگنے کے بعد ان کی حالت تشویشناک تھی۔ قومی نشریاتی ادارے این ایچ کے نے پولیس ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 40 سالہ شخص کو سابق وزیراعظم پر قاتلانہ حملے کے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے اور اس کے قبضے سے اسلحہ بر آمد کرلیا گیا ہے۔
این ایچ کے اور کیوڈو نیوز ایجنسی کی رپورٹس کے مطابق سابق وزیراعظم آئندہ اتوار کو ہونے والے ایوان بالا کے انتخابات سے قبل تقریب میں خطاب کر رہے تھے کہ اسی دوران مبینہ طور پر گولیوں کی آواز سنی گئی۔جائے وقوعہ پر موجود نوجوان خاتون نے این ایچ کے کو بتایا کہ سابق وزیر اعظم تقریر کر رہے تھے اور اسی دوران عقب سے ایک شخص آیا، پہلے اس نے فائر کیا جس کی آواز ایک کھلونے کی مانند تھی لیکن وہ گرے نہیں اور پھر ایک زور دار دھماکا ہوا۔
خاتون نے بتایا کہ ان پر کیا گیا دوسرا فائر واضح دکھائی دیا، چنگاری اور دھواں بھی دیکھا جا سکتا تھا، دوسری گولی کے بعد لوگوں نے انہیں گھیرے میں لے لیا اور ان کا کارڈیک مساج شروع کردیا۔شنزوایبے کی حکمران جماعت لبرل ڈیموکریٹک پارٹی (ایل ڈی پی) کے ذرائع نے میڈیا کوبتایا کہ حملے کے بعد 67 سالہ شنزوایبے گر گئے تھے اور ان کی گردن سے خون بہہ رہا تھا۔ایل ڈی پی اور مقامی پولیس دونوں فوری طور پر ان اطلاعات کی تصدیق نہیں کر سکے۔
این ایچ کے اور کیوڈو دونوں خبر رساں اداروں نے رپورٹ کیا کہ شنزوایبے کو ہسپتال لے جایا گیا کیونکہ ان کی حالت بہت تشویشناک دکھائی دیتی تھی اور ان کی ہلاکت کے خدشات جنم لے رہے ہیں۔کئی میڈیا آؤٹ لیٹس نے رپورٹ کیا کہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ انہیں پیچھے سے گولی ماری گئی ہے۔حکومت کا کہنا ہے کہ اس واقعے کے تناظر میں ٹاسک فورس تشکیل دی گئی ہے اور توقع ہے کہ اس حوالے سے اعلیٰ حکومتی ترجمان جلد ہی بات کریں گے۔
جاپان کے سب سے طویل عرصے تک وزیر اعظم رہنے والے شنزو ایبے نے 2006 میں ایک سال حکومت کی اور پھر 2012 سے 2020 تک اپنے عہدے پر فائز رہے اور آٹھ سال تک حکومت کے بعد وہ آنتوں کی بیماری کے باعث استعفیٰ دینے پر مجبور ہوئے۔جاپان میں اسلحہ پر قابو پانے کے حوالے سے دنیا کے سخت ترین قوانین لاگو ہیں اور ایک کروڑ 5 لاکھ افراد کے ملک میں آتشیں اسلحے سے ہونے والی سالانہ اموات کی تعداد بہت کم ہے۔بندوق کا لائسنس حاصل کرنا
جاپانی شہریوں کے لیے بھی ایک طویل اور پیچیدہ عمل ہے، اس کے حصول کے لیے شہریوں کو پہلے شوٹنگ ایسوسی ایشن سے سفارش حاصل کرنی ہوتی ہے اور پھر سخت پولیس چیکنگ سے گزرنا ہوتا ہے۔دوسری جانب جاپان کے وزیراعظم فومیو کشیدا نے سابق وزیراعظم شنزو ایبے پر قاتلانہ حملے کی شدید مذمت کی ہے۔جاپانی وزیراعظم کے مطابق انتخابی مہم کے دوران اس قسم کا تشدد ناقابل قبول ہے۔انہوں نے کہا کہ انتخابات کے شیڈول سے متعلق فی الحال کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں