پیرس (پی این آئی ) ایف اے ٹی ایف نے متحدہ عرب امارات کو بھی گرے لسٹ میں ڈال دیا، فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے متحدہ عرب امارات کو اپنے نظام میں بڑی اور بنیادی تبدیلیاں لانے کا ٹاسک دیا تھا۔ تفصیلات کے مطابق دنیا کی بڑی معیشتوں میں شمار ہونے والے متحدہ عرب امارات کو زبردست دھچکا پہنچا ہے۔ بین الاقوامی خبر رساں ایجنسی رائیٹرز کی رپورٹ کے مطابق فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے متحدہ عرب امارات کو گرے لسٹ میں شامل کرنے کا اعلان کیا ہے۔
پیرس میں 4 روز تک جاری رہنے والے اجلاس کے اختتام پر جاری اعلامیہ میں کہا گیا کہ متحدہ عرب امارات نے 2020 سے اب تک خاطر خواہ کارکردگی دکھائی ہے، امارات فیٹف کی جانب سے دیے نصف سے زائد نکات پر عمل درآمد کرنے میں کامیاب رہا، تاہم اسے مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔رائیٹرز کی رپورٹ کے مطابق ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں شامل ہو جانا متحدہ عرب امارات کی معیشت کیلئے بہت بڑا دھچکا ہے۔فرانس کے دارالحکومت پیرس سے پاکستان کیلئے بھی مایوس کن خبر سامنے آئی۔ پیرس میں 4 روز تک جاری رہنے والے اجلاس کے اختتام پر ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کی کارکردگی رپورٹ کا جائزہ لینے کے بعد پاکستان کو گرے لسٹ میں ہی برقرار رکھنے کا فیصلہ سنایا۔ اجلاس کے آخری روز پاکستان کے 5 ايکشن پلانز کا جائزہ ليا گيا، 4 ايکشن پلان منی لانڈرنگ اور ايک پلان دہشتگردی کی مالی معاونت سے متعلق تھا۔
ایف اے ٹی ایف نے اعتراف کیا کہ پاکستان 28 میں سے 27 نکات پر عمل کر چکا، اس کے باوجود پاکستان کو مزید 4 ماہ کیلئے گرے لسٹ میں رکھنے کا فیصلہ کرتے ہوئے جون تک اہداف حاصل کرنے کا وقت دے دیا۔ یہاں یاد رہے کہ پاکستان 2018 سے ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں موجود ہے۔ واضح رہے کہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس ایک عالمی ادارہ ہے، جس کا قیام 1989 میں جی سیون سمٹ کی جانب سے پیرس میں عمل میں آیا۔اس کا بنیادی مقصد عالمی سطح پر منی لانڈرنگ کی روک تھام تھا۔ تاہم 2011 میں اس کے مینڈیٹ میں اضافہ کرتے ہوئے اس کے مقاصد بڑھا دیے گئے۔ ان مقاصد میں بین الاقوامی مالیاتی نظام کو دہشت گردی، کالے دھن کو سفید کرنے اور اس قسم کے دوسرے خطرات سے محفوظ رکھنا اور اس حوالے سے مناسب قانونی، انضباطی اور عملی اقدامات طے کرنا تھا۔ ادارے کے کُل 38 ارکان ہیں جن میں پاکستان شامل نہیں۔
ادارے کا اجلاس ہر 4 ماہ بعد، یعنی سال میں 3 بار ہوتا ہے۔ ہر اجلاس میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس کی جاری کردہ سفارشات پر کس حد تک عمل کیا گیا ہے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں