اسلام آباد (پی این آئی )آئیں سیدھی بات کریں، کیا ہم تیسری عالمی جنگ کی ابتدا دیکھ رہے ہیں۔کیونکہ اکثر لوگ یہی سوال کر رہے ہیں۔ روس کی یوکرین میں حالیہ کارروائیاں، روسی رہنماؤں کے بیانات اور مغربی رہنماؤں کے جوابی بیانات اور روس پر پابندیوں کے اعلانات سے تو یہی تاثر ملتا ہے۔بی بی سی اردو کی رپورٹ کے مطابق لیکن اس کا جواب نفی میں ہے۔ یوکرین اور روس کے درمیان حالات خواہ کتنے ہی خراب کیوں نہ ہوں لیکن یہ براہ راست نیٹو اور روس کا جھگڑا نہیں ہے۔
درحقیقت جب امریکہ اور برطانیہ نے روس کی جانب سے اتنی بڑی تعداد میں فوجیوں کو یوکرین کی سرحد پر لانے کا عمل دیکھا تو اس پر مایوسی ظاہر کی اور دونوں ملکوں نے یوکرین میں موجود اپنے فوجی تربیت کاروں اور مشیروں کو فوراً وہاں سے نکال لیا۔امریکی صدر جو بائیڈن نے رواں ماہ کے ابتد میں کہا تھا کہ ’عالمی جنگ تب ہو گی جب امریکی اور روسی فوجی ایک دوسرے پر فائرنگ کر رہے ہوں گے۔‘
صدر بائیڈن نے واضح طور پر کہا تھا کہ یوکرین میں صورتحال جیسی بھی ہو وہ امریکی فوجیوں کو یوکرین کی سرزمین پر تعینات نہیں کریں گے۔ایسی صورت میں آپ کو کتنا پریشان ہونا چاہیے اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ کون ہیں، کہاں ہیں اور روس کا اگلا قدم کیا ہو گا؟اگر آپ یوکرینی فوجی ہیں اور ملک کی مشرقی سرحد پر تعینات ہیں تو آپ یقیناً ایک خطرناک صورتحال سے دوچار ہیں۔ اسی طرح لاکھوں یوکرینی باشندوں کو بھی پریشانی لاحق ہے کہ یہ بحران ان کی زندگیوں کو کیسے متاثر کر سکتا ہے۔
روس یوکرین میں کہاں تک اپنی افواج کو بھیجنا چاہتا ہے، اس کا علم تو صدر پوتن اور ان کے قریبی ساتھیوں کو ہی ہو گا۔ لیکن نیٹو اور دوسرے مغربی ممالک کے لیے سرخ لکیر وہ ہو گی جب نیٹو ممالک کو روس سے خطرہ محسوس ہو گا۔نیٹو معاہدے کے آرٹیکل پانچ کے تحت اگر کسی رکن ریاست پر کوئی حملہ ہوتا ہے تو نیٹو کے تمام ممالک کو اس کے دفاع کے لیے آنا ہو گا۔اگرچہ یوکرین کا کہنا ہے کہ وہ نیٹو کا حصہ بننا چاہتا ہے لیکن وہ ابھی تک نیٹو اتحاد کا حصہ نہیں ہے اور صدر پوتن یوکرین کی نیٹو اتحاد میں شمولیت کے سخت مخالف ہیں۔البتہ چار ایسی ریاستیں نیٹو اتحاد میں شامل ہو چکی ہیں جو ماضی میں سوویت یونین کے وقت ماسکو کے دائرہ اثر میں تھیں۔
ان میں پولینڈ، ایسٹونیا، لٹویا اور لیتھونیا شامل ہیں۔ماضی میں ماسکو کے دائرہ اثر میں رہنے والے ممالک کو خدشہ ہے کہ روس یوکرین تک محدود نہیں رہے گا اور وہ ان ممالک میں بسنے والے روسی نسل کے باشندوں کی مدد کے بہانے ان پر بھی حملہ آور ہو سکتا ہے۔اسی وجہ سے نیٹو نے حالیہ دنوں میں بالٹک ریاستوں میں اضافی فوجی تعینات کیے ہیں۔جب تک روس اور نیٹو اتحاد کا براہ راست ٹکراؤ نہیں ہوتا تب تک پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، خواہ یوکرین میں حالات کتنے ہی خراب کیوں نہ ہوں، عالمی جنگ کا کوئی خطرہ نہیں۔
لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ روس اور امریکہ کے پاس آٹھ ہزار قابلِ استعمال جوہری ہتھیاروں کا ذخیرہ ہے۔ لہٰذا خطرات بہت زیادہ ہیں۔سرد جنگ کے زمانے میں استعمال ہونے والا لفظ ‘میڈ (Mutually Assured Destruction) یعنی جوہری ہتھیار کو پہلے استعمال کرنے والا اور جس پر جوہری ہتھیار استعمال ہوا ہو، دونوں کی مکمل تباہی یقینی ہے، کا اصول آج بھی لاگو ہوتا ہے۔برطانوی فوج کے سینیئر ذرائع کے مطابق صدر پوتن نیٹو پر حملہ نہیں کریں گے اور یہ کہ وہ صرف یوکرین کو بیلاروس کی طرح ایک اطاعت گزار ریاست بنانا چاہتے ہیں۔لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ صدر پوتن کیا سوچ رہے ہیں۔
عام طور پر صدر پوتن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ٹھنڈے دل و دماغ والے شطرنج اور جوڈو کے کھلاڑی ہیں لیکن سوموار کے روز کی تقریر سے وہ ایک شاطر منصوبہ ساز سے زیادہ ایک بپھرے ہوئے ڈکٹیٹر محسوس ہوئے ہیں۔صدر پوتن نے نیٹو کو ایک ’برائی‘ قرار دیتے ہوئے دراصل یوکرین کو بتایا ہے کہ اس کے پاس روس سے علیحدہ ایک آزاد اور خودمختار ریاست کے وجود کا کوئی حق نہیں ہے۔ یہ سوچ پریشان کُن ہے۔
برطانیہ وہ واحد ملک نہیں ہے جو روس کو سزا دینے کی کوشش کر رہا ہے۔ امریکہ اور جرمنی اس سے ایک قدم آگے نکل گئے ہیں۔جرمنی نے روس سے آنے والی نارڈ سٹریم 2 گیس پائپ لائن منصوبے کی منظوری کے عمل کو التوا میں ڈال دیا ہے۔ لیکن برطانیہ روس پر پابندیاں لگانے پر زور دینے میں پیش پیش ہے۔بی بی سی اردو کے مطابق روس بھی کسی نہ کسی انداز میں یقیناً جواب دے گا۔
روس میں مغربی ممالک کے کاروبار متاثر ہو سکتے ہیں لیکن اگر صدر پوتن فیصلہ کریں تو روس اس سے بہت آگے جا سکتا ہے۔یہ حملے جن کا کسی کو مورد الزام ٹھہرانا مشکل ہوتا ہے، ان میں بینکوں، کاروبار، افراد اور اہم انفراسٹرکیچر کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔لیکن مسئلہ یہ ہے برطانیہ اور روس کے تعلقات برسوں سے خراب چلے آ رہے ہیں جس کی وجوہات میں برطانوی سرزمین پر روس سے منحرف ہونے والے روسی شہریوں کو زہر دینا شامل ہے۔ اب روس اور برطانیہ میں اعتماد نہ ہونے کے برابر ہے۔اور اس پس منظر میں کھلے عام ایسے الزامات کہ یوکرین کے بحران کا ذمہ دار کون ہے، خطرناک عمل ہے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں