امریکا دنیا کا سب سے مقروض ترین ملک بن گیا، خزانے پر بوجھ مزید بڑھ گیا

واشنگٹن(پی این آئی)امریکی محکمہ خزانہ نے انکشاف کیاہے کہ امریکی تاریخ میں پہلی مرتبہ کل قومی قرضہ جات30 ٹریلین ڈالر سے بڑھ گئے ہیں یہ رقم امریکی سالانہ اقتصادی پیداوار( جی ڈی پی)کے تقریباً 31 فیصدکے برابر ہے جس سے امریکہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ مقروض ملک بن گیا ہے۔ امریکی وفاقی قرضہ عشروں سے بہت زیادہ رہا ہے اور بڑھتا جا رہا ہے لیکن کرونا وائرس کی تیزی سے بڑھتی ہوئی وبا نے وفاقی حکومت کے قومی خزانے پر بوجھ کو مزید بڑھا دیا ہے۔

2019کے آخر میں اس وبا کے پھیلنے سے پہلے قومی قرضہ جات22 کھرب سے زیادہ تھے ایک سال بعد یہ پانچ کھرب بڑھ کر27 کھرب کے قریب ہو گئے اس کے بعد سے ملک پر دو کھرب ڈالر کا مزید قرض بڑھ گیا۔امریکی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق 30کھرب قرضے کا یہ عدد اپنے طور پر کوئی اہمیت نہیں رکھتا لیکن بہت سے لوگ اسے مستقبل کی معیشت کو تشویش کی نظر سے دیکھ رہے ہیں جی ڈی پی کے مقابلے میں قرضے کی شرح جو کسی بھی ملک کے مقروض ہونے کا پیمانہ ہوتا ہے اس کے حساب سے امریکہ دنیا کے مقروض ترین ملکوں میں سے ایک ہے. عالمی بینک کے اکتوبر کے اعدادو شمار کے مطابق جی ڈی پی کے مقابلے میں سب سے زیادہ قرض دار ملک جاپان ہے جس کا قرض ملکی اقتصادی پیداوار کے257 فیصدکے برابر ہے دوسری ترقی پذیر معیشتوں میں یونان کی جی ڈی پی کے مقابل قرضے کی شرح207 فیصد اور اٹلی کی155 فیصد ہے جبکہ137 فیصد کی شرح کے ساتھ مجموعی طور پر امریکہ سب سے مقروض ملکوں میں بارہویں نمبر پر ہے اسی طرح ترقی یافتہ معیشتوں میں امریکا چوتھے نمبر پر ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہر سال وفاقی خسارہ جمع ہوتے ہوئے یہ قومی قرضہ بڑھا ہے پچھلے پچاس سالوں میں صرف چار سالوں میں 1998 سے لیکر2001 تک امریکی اخراجات کے مقابلے میں خزانے میں فاضل رقم تھی جن میں پہلا سال ایک ریپبلکن صدر جارج ڈبلیو بش کی انتظامیہ کا تھا جبکہ باقی تین سال ایک ڈیموکریٹ بل کلنٹن انتظامیہ کے تھے. حالیہ عشروں میں ڈیمو کریٹس اور ریپبلکن دونوں نے اس سے قطع نظر کہ وہائٹ ہاؤس میں کون بر سر اقتدار تھا، بڑے پیمانے پر ،قرضے لیے جس سے وفاقی قرضہ مسلسل بڑھتا رہا یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو بہت سے کانگریس کے ارکان میں مایوسی کا سبب ہے جبکہ ان کے کچھ ساتھی ارکان کو مسئلے کی شدت کا اندازہ ہی نہیں ہے۔نبراسکا کے ریپبلکن سینیٹر بین سیسسے ایک بیان میں کہتے ہیں کہ قرضے میں 30 کھرب کا ہندسہ قابل نفرت ہے لیکن اس سے زیادہ تکلیف دہ چیز یہ ہے کہ دونوں پارٹیوں کے زیادہ تر سیاستدانوں کو اس کی پرواہ ہی نہیں ہے جب یہ سیاستدان نہیں ہوں گے تو کسی کو تو یہ قیمت چکانی ہو گی؛ ظاہر ہے خرابی کے ذمّہ داروں کو یہ ادائیگیاں نہیں کرنی پڑیں گی بلکہ انہیں بلکہ ہمارے بچے اداکریں گے۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں