اشرف غنی دھاندلی کرکے اقتدار پر قابض ہوئے، امریکا نے سابق افغان صدر پر الزامات عائد کر دیئے

واشنگٹن(پی این آئی)طالبان کے ساتھ مذاکرات میں امریکی وفد کی قیادت کرنے والے اعلیٰ امریکی سفارتکار زلمے خلیل زاد نے الزام لگایا ہے کہ افغان صدر اشرف غنی کی بے حسی، افغان اشرافیہ کی مطلب پرستی اور افغان فوجیوں کی جانب سے طالبان سے لڑنے کے عزم میں کوتاہی ایسے اسباب تھے جن کہ بنا پر اگست میں طالبان کو موقع ملا کہ وہ تیزی کے ساتھ پیش قدمی کرتے ہوئے ملک پر قبضہ جما لیں.

خلیل زاد نے واشنگٹن میں ”کارنیگی انڈومینٹ فار انٹرنیشنل پیس“ کے تحت منعقدہ ایک مباحثے کے دوران خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم سب حیران تھے کہ صدر غنی اس بات پر اڑے رہے کہ عہدے کی مدت پوری ہونے تک وہ اقتدار سے چمٹے رہنا چاہتے ہیں حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ دھاندلی زدہ انتخابات کے ذریعے دوبارہ منتخب ہوئے تھے جس میں چند افغانوں نے شرکت کی تھی.انہوں نے پہلی بار یہ بات تسلیم کی کہ امریکہ اس بات کے حق میں نہیں تھا کہ افغانستان میں صدارتی انتخابات ہوں جن میں غنی جیت کر دوبارہ عہدہ سنبھالیں خلیل زاد نے کہا کہ امریکہ اس بات کا خواہاں تھا کہ ایک عبوری حکومت تشکیل دی جائے جسے دونوں فریق تسلیم کریں ایسے میں جب تک افغان سیاست داں اور متمدن معاشرے کے ارکان طالبان کے ساتھ کسی سیاسی تصفیہ تک پہنچیں.خلیل زاد نے کہا کہ غنی نے سب سے بڑا غلط اندازہ یہ لگایا تھا کہ خطے سے امریکی انخلا ممکن نہیں ہو گاچونکہ امریکی افواج اور اس کے خفیہ ادارے چین، روس، ایران اور پاکستان جیسے حکمت عملی کے حامل ملکوں کے نزدیگ رہنا چاہیں گے۔

خلیل زاد نے بتایا کہ میں نے انہیں قائل کرنے کی کوشش کی کہ صدر ٹرمپ اس معاملے میں انتہائی سنجیدہ ہیں تو اشرف غنی نے کہا کہ نہیں مجھے تو انٹیلی جنس اور فوج نے کچھ اور ہی بتایا ہے.انہوں نے کہاکہ غنی نے اپنی فوج کے لڑنے کی قوت سے متعلق بھی غلط اندازہ لگایا تھا جب امریکہ نے انخلا کا فیصلہ کیا تو انھوں نے خلیل زاد کو بتایا کہ اب میں افغان طریقے سے جنگ لڑنے کے معاملے میں آزاد ہوں میں چھ مہینے کے اندر طالبان کو شکست دے دوں گا چونکہ آپ لڑائی میں کمزوری دکھا رہے تھے انہوں نے کہاکہ یہ حقیقت ہے کہ امریکہ کی تربیت یافتہ اور اسلحے سے لیس تین لاکھ سے زائد افغان سیکورٹی افواج اور قومی پولیس محض ساٹھ سے سترہزار تعداد رکھنے والے طالبان کے سامنے کھڑی نہ ہو سکیں خلیل زاد نے کہا کہ اس کی وجہ کم ہمتی، بدعنوانی اور اگلے محاذ پر تعینات فوجیوں کے ساتھ غلط سلوک روا رکھنا تھی۔

انہوں نے کہا کہ اس کا سبب زیادہ تر افغانستان کا مخصوص سیاسی انداز تھاجس پر لوگوں کو بھروسہ نہیں تھا، نہ ہی فوج کو جب کہ دوسری جانب طالبان اپنی دھن کے پکے تھے خلیل زاد نے افسوس کا اظہار کیا کہ افغان اشرافیہ کا رویہ خود غرضانہ، مطلبی اور بدعنوان ہو چکا تھا یہی سبب ہے کہ طالبان کے ساتھ امن مذاکرات ناکام ہوتے رہے. انہوں نے کہا کہ مجھے مایوسی ہے کہ جس اشرافیہ کے ساتھ ہم رابطے میں رہے انہوں نے وقت کے تقاضوں کو پورا کرنے میں کوتاہی برتی یہ ایک سنہری موقع تھا جو امریکہ کی جانب سے کی جانے والی بات چیت کی وجہ سے میسر آیا تھا۔

خلیل زاد نے کہا کہ اگر طالبان نے اپنے وعدے پورے نہ کیے یا بین الافغان بات چیت میں پیش رفت حاصل نہ ہو پائی تو طے شدہ طریقہ کار کے تحت انخلا کی تاریخ میں تاخیر کی لچک کا عنصر موجود تھا لیکن، صدر جو بائیڈن نے فیصلہ کیا کہ اصل نظام الاوقات کی پابندی کی جائے گی خلیل زاد نے اس بات کی وکالت کی کہ طالبان کے ساتھ ایک دانش مندانہ سفارتی بات چیت کی جائے جس میں ایک سمجھوتا طے ہو جس میں ایک “روڈ میپ“ کا تعین ہو جس میں ایک دوسرے پر اعتماد یا بداعتمادی کو مد نظر رکھتے ہوئے اس بات کا تعین ہو کہ کس وقت کے اندر کیا کچھ ہونا ممکن ہو سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ واشنگٹن میں افغانستان کے بارے میں پالیسی غلط اطلاعات پر مبنی مباحثے کی یرغمال بن چکی ہے جو کہ امریکی مفادات کے لئے نقصان دہ ہوسکتی ہے خلیل زاد نے کہا کہ امریکہ کے متعدد لوگ اس بات کے خواہاں ہیں کہ طالبان کو نقصان پہنچنا چاہئے اور ان کی حکومت گرنی چاہئے ہم انھیں شکست دینے میں ناکام رہے اور یہ بات عوام کو پسند نہیں آئی .انہوں نے خبردار کیا کہ افغانستان کی حکومت کی ناکامی کی صورت میں خانہ جنگی شروع ہو جائے گی اور انسانی ہمدردی کی نوعیت کی تباہی پھیلے گی جس کے نتیجے میں دہشت گرد گروہوں کو پنپنے کا موقع ملے گا انہوں نے کہا کہ سمجھوتے پر دستخط کے بعد 18 ماہ سے طالبان نے یہ بات ثابت کی ہے کہ وہ اپنی زبان پر قائم ہیں اور انہوں نے کسی ایک امریکی کو ہلاک نہیں کیا حالانکہ اس عرصے کے دوران افغان افواج کے دفاع کے لیے کی گئی امریکی کارروائیوں میں سینکڑوں لوگ ہلاک ہوئے جن میں طالبان شامل تھے خلیل زاد نے کہا کہ طالبان بیرونی مدد سے استفادہ کرتے ہوئے افغانستان میں داعش کے شدت پسند گروپ سے نمٹ سکتے ہیں۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں