تہران (پی این آئی) انقلابِ ایران کے بعد ملک کے سب سے پہلے صدر بننے والے ابو الحسن بنی صدر 88 برس کی عمر میں انتقال کرگئے۔ابوالحسن بنی صدر کے اہلخانہ کا کہنا ہے کہ ان کا انتقال فرانس کے دارالحکومت پیرس کے ایک ہسپتال میں طویل علالت کے بعد ہوا ہے۔ وہ انقلاب ِ ایران سے پہلے اور انقلاب کے بعد د وبار ملک سے فرار ہوئے۔
ابوالحسن بنی صدر سنہ 1979 کے انقلابِ ایران کے بعد سنہ 1980 میں ایران کے پہلے صدر منتخب ہوئے تھے تاہم 16 مہینے بعد ہی انہیں صدارت سے فارغ کردیا گیا تھا۔ اس کے بعد وہ فرانس فرار ہوگئے جہاں انہوں نے کچھ عرصے کیلئے ایک ایسے گروپ کے ساتھ مل کر کام کیا جو ایران سے مذہبی رہنماؤں کی حکومت ختم کرنا چاہتا تھا۔ ابو الحسن بنی صدر کو سنہ 1960 میں اس وقت جیل کی ہوا کھانی پڑی تھی جب انہوں نےشاہِ ایران کے خلاف آواز بلند کی تھی۔ رہائی کے بعد وہ فرانس فرار ہوگئے اور انقلابِ ایران کے روحِ رواں آیت اللہ روح اللہ خمینی کے ساتھ مل گئے اور جلد ہی ان کے قریبی ساتھیوں اور مشیروں میں شامل ہوگئے۔ جب انقلاب آیا تو وہ امام خمینی کے ساتھ ہی واپس ایران آئے تھے۔وہ سیاسی نظام میں علماء کی شمولیت کے خلاف تھے جس کے باعث امام خمینی کے حکم پر پارلیمنٹ میں ان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پیش کی گئی تھی جس کے بعد انہیں اپنی صدارت سے ہاتھ دھونا پڑے تھے۔ اس کے ایک مہینے بعد وہ دوبارہ فرانس فرار ہوئے جہاں انہیں سیاسی پناہ ملی اور انہوں نے نیشنل کونسل آف رزسٹنس آف ایران کی بنیاد رکھی تاہم تین سال بعد ہی 1984 میں انہوں نے اس تنظیم سے علیحدگی اختیار کرلی۔انہوں نے ایک بار ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کو انٹرویو دیتے ہوئے امام خمینی کے بارے میں کہا تھا ” میں اس بچے کی طرح تھا جو اپنے باپ کو نشے کا عادی ہوتا دیکھ رہا تھا لیکن اس بار نشہ طاقت کا تھا۔” سنہ 2019 میں دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا تھا کہ امام خمینی نے طاقت ملتے ہی انقلاب کے اصولوں کے ساتھ دھوکے سے کام لیا جس کے باعث ان جمہوریت پسند لوگوں کو سخت مایوسی ہوئی جو ان کے ساتھ انقلاب کے وقت واپس ایران آئے تھے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں