کابل (پی این آئی) افغان طالبان افغانستان کے آخری محاذ پر بھی فتح حاصل کرنے میں کامیاب۔ تفصلات کے مطابق میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ افغان طالبان نے پنجشیر میں بھی فتح حاصل کر لینے کا دعویٰ کیا ہے۔ اس حوالے سے افغان طالبان کا دعویٰ ہے کہ پنجشیر میں جنگ رک گئی ہے۔ جنگ لڑنے والے مزاحمتی اتحاد نے طالبان کو تسلیم کرنے کا فیصلہ کر لیا جس کے بعد ہی جنگ رکی۔جبکہ سوشل میڈیا پر یہ افواہیں بھی گردش کر رہی ہیں کہ پنجشیر میں افغان طالبان کیخلاف جنگ لڑنے والے احمد مسعود اور امر اللہ صالح فرار ہو گئے ہیں، تاہم اس حوالے سے کوئی باقاعدہ تصدیق یا تردید نہیں ہو سکی۔ واضح رہے کہ گزشتہ روز افغان طالبان نے پنجشیر پر بھرپور قوت سے حملہ کیا تھا۔پنجشیر میں طالبان اور مزاحمتی فورسز کے درمیان گھمسان کی لڑائی جاری تھی۔پنجشیر کی صورتحال کے حوالے سے ترجمان افغان طالبان نے کہا کہ کہ یہ معاملہ اب افغانستان کی داخلی صورتحال کے حوالے سے انتہائی اہم ہو گیا ہے، پنجشیر کی صورتحال کی وجہ سے افغانستان کے امن و امان کی صورتحال خراب ہونے کے خدشات پیدا ہوئے ہیں۔ ترجمان کے مطابق مزاحمتی فورسز کے ساتھ بات چیت کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی تاہم اسی دوران ان کی جانب سے حملہ کر دیا گیا۔اسی لیے اب مسلح مزاحمت کو کچلنا ناگزیر ہو گیا، مذاکرات میں ناکامی کے بعد آپریشن کا آغاز کیا، ہمارے جنگجو پنجشیر کے کئی علاقوں میں داخل ہو چکے ہیں۔ دوسری جانب پنجشیر کے مزاحمتی اتحاد کے سربراہ احمد مسعود نے کہا کہ مذاکرات کے حق میں ہیں تاہم طالبان کیساتھ مذاکرات میں کوئی پیشرفت نہیں ہوسکی، جارحیت کا سامنا کرنا پڑا تو اپنی زمین، عوام، اقدار کے دفاع کیلئے مزاحمت پر مجبور ہونگے۔امریکی میڈیا کو دیئے گئے انٹرویو میں پنجشیر کے مزاحمتی اتحاد کے سربراہ احمد مسعود نے کہا کہ طالبان کو تمام نسلی گروہوں پر مشتمل جامع حکومت کی صورت میں ہی تسلیم کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے طالبان تبدیل نہیں ہوئے ہیں، وہ اب بھی ملک میں برتری چاہتے ہیں، مزاحمتی محاذ سیاسی قوت کے ذریعے اکثریت پر برتری، عدم برداشت، دبائو کیخلاف مزاحمت کر رہا ہے۔احمد مسعود نے کہا کہ کثیرالثقافتی ریاست پر طالبان کو ملک پر حکمرانی کی اجازت نہیں دی جاسکتی، اگر طالبان ایسا کریں گے تو مزاحمت کریں گے، طویل مدت تک مزاحمت جاری رکھنے کیلئے مددکی ضرورت ہوگی۔انہوں نے کہاکہ طالبان نے حکومت کی کمزوری کی وجہ سے ملک پر کنٹرول حاصل کیا، سابق افغان صدر اشرف غنی نے طالبان سے لڑنا جاننے والی فوج کو ختم کر دیا ، غنی اور حمد اللہ محب کی فوج کے فیصلہ سازی کے عمل میں مداخلت نے افواج کو کمزور کیا، یہ لوگ فوجی تربیت، تجربہ نہ ہونے کے باوجود جنگ سے متعلق حتمی فیصلے کرتے تھے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں