واشنگٹن(پی این آئی) امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے سابق افغان صدر اشرف غنی کے اس دعوے کی تائید سے انکار کردیاہے کہ کابل پر طالبان کے حملے میں 10 سے 15 ہزار پاکستانی شامل تھے۔میڈیارپورٹس کے مطابق سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ایک سینیئر عہدیدار نے افغانستان سے امریکی فوجیوں اور شہریوں کو نکالنے کی امریکی کوششوں میں اہم مدد فراہم کرنے پر پاکستان اور دیگر شراکت داروں کا شکریہ ادا کیا۔اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ترجمان نیڈ پرائس سے جب اشرف غنی کے دعوے کے حوالے سے سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ میں ان رپورٹس کی تصدیق کے لیے ان پر تبصرہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں۔امریکی عہدیدار نے اس سوال کا بھی جواب نہیں دیا کہ کیا واشنگٹن اب بھی اشرف غنی کو افغانستان کا جائز حکمران سمجھتا ہے۔جب نیڈ پرائس سے سوال کیا گیا کہ کیا وہ اس دعوے پر تبصرہ کریں گے کابل میں موجود طالبان فورسز میں غیر ملکی بھی شامل ہیں تو انہوں نے کہا کہ اگر ہمارے پاس مزید معلومات ہوئیں تو فراہم کردیں گے۔دوسری جانب انڈر سیکریٹری اسٹیٹ برائے پولیٹکل افیئرز وکٹوریہ نولینڈ نے ایک نیوز بریفنگ کے دوران پاکستان کو ان ایک درجن ممالک میں شامل کیا جنہوں نے امریکا کی انخلا کی کوششوں میں اہم مدد فراہم کی۔ان کا کہنا تھا کہ ہم ان ممالک کے بڑے نیٹ ورک کے بے حد مشکور ہیں جنہوں نے ہماری انخلا کی کوششوں میں اہم مدد فراہم کی۔ان کا کہنا تھا کہ انخلا اور نقل مکانی دونوں پر ہمارے اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ ہمارا قریبی تعاون اہم ہے ، لیکن ساتھ ہی ہم افغان عوام اور طالبان کے ساتھ اپنے جاری تعلقات کو گنجائش دینا شروع کررہے ہیں۔ایک علیحدہ بریفنگ میں اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ایک اور عہدیدار نے صحافیوں کو بتایا کہ افغانستان میں 20 سالہ فوجی مہم کے دوران امریکا کے لیے کام کرنے والے افغانوں کی اکثریت کو وہیں چھوڑ دیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ امریکی حکام اس انتخاب سے کہ جو ہمیں کرنا پڑا اور ان لوگوں کی وجہ پریشان تھے جنہیں انخلا کے پہلے مرحلے میں ہم نہیں نکال سکے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں