کابل(پی این آئی)افغانستان کے مرکزی بینک کے سربراہ اجمل احمدی نے کہاہے کہ ملک میں حکومت کا خاتمہ اس تیزی سے ہوا کہ سمجھنا بہت مشکل تھا، اشرف غنی کو اقتدار کی منتقلی کا پلان نہ بنانے پر معاف نہیں کرسکتا۔میڈیارپورٹس کے مطابق انہوں نے بتایا کہ جمعرات کا دن آیا توعام حالات کی طرح میٹنگز میں شرکت کی، صبح غزنی کا سقوط ہوگیا، جب تک میں گھر روانہ ہوا اس وقت تک ہرات، قندھار، بادغیس بھی طالبان کے قبضے میں جاچکے تھے۔اجمل احمدی نے بتایا کہ دیہی علاقوں کا بڑا حصہ کئی ماہ قبل ہی طالبان کے قبضے میں چلا گیا تھا، لیکن پہلے صوبائی دارالحکومت پر طالبان نے 9 روزقبل کنٹرول حاصل کیا، جمعہ 6 اگست کو زرنج پرقبضہ ہوا اس کیب عد محض 6 دن میں شمال میں کئی صوبے طالبان کے کنٹرول میں چلے گئے۔انہوں نے بتایا کہ کئی افواہوں میں یہ کہا گیا کہ طالبان کیخلاف مزاحمت نہ کرنیکا اوپر سے حکم ملا تھا تاہم اس سب پریقین کرنا مشکل ہے، لیکن یہاں یہ بات مشکوک ہے کہ افغان نیشنل سیکیورٹی فورس نے پوسٹیں تیزی سے کیوں خالی کیں یقینی طور پر کچھ تھا جسے چھپایا گیا۔اجمل احمدی کا کہنا تھا کہ جمعہ کوہمیں فون پربتایا گیا کہ سیکیورٹی کی بگڑتی صورتحال کے باعث ڈالرز کی کھیپ نہیں مل سکے گی، ہفتے کو مرکزی بینک کی جانب سے ماررکیٹ میں کم کرنسی اتاری گئی جس سے بیچینی مزید بڑھ گئی، ہفتے کو ملاقاتوں میں بینکوں اور منی چینجرز کو اطمینان دلانے کی کوشش کی، یقین نہیں آتا کہ یہ وہ دن تھا کہ جس کیاگلے روز ہی کابل ہاتھ سے نکل گیا ۔انہوں نے کہا کہ ہفتے کو میرے اہلخانہ نے کہا کہ تقریبا تمام حکومتی شخصیات ملک چھوڑ چکی ہیں اوربس میں ہی بیوقوف بچا ہوں، میں پریشان ہوگیا اور احتیاطی طور پر پیر کے لیے ٹکٹ خرید لیے، اتوار کو میں نے کام شروع کیا لیکن جو خبریں آرہی تھیں وہ پریشانی میں مسلسل اضافہ کررہی تھیں، میں نے بینک چھوڑا، ملازمین کو اس طرح چھوڑنا بہت وحشت ناک تھا لیکن اس کے باوجود میں ایئرپورٹ پہنچ گیا جہاں دیگرشخصیات بھی موجود تھیں۔افغانستان کے مرکزی بینک کیسربراہ نے بتایا کہ سیکنڈ نائب صدر دانش بھی ملک چھوڑ کر قطر جارہے تھے، وزرا اور دیگر شخصیات نجی ایئر لائنز کی پروازوں کا انتظار کر رہے تھے، لیکن پروازیں منسوخ ہوگئیں ، میں ایک اور نجی ایئرلائن کی فلائٹ بک کرانے میں کامیاب ہوگیا، لیکن پھر تخت گر گیا اور صدر ملک چھوڑ کر چلے گئے۔اجمل احمدی نے بتایاکہ مجھے معلوم تھا کہ فلائٹ منسوخ ہوجائیگی اور ہرطرف افراتفری ہوگی، توقع کیمطابق اہلکاروں اور فوجیوں نے پوسٹیں چھوڑ دیں، ہرکوئی جہاز کی طرف دوڑا 100 سیٹوں کے جہاز میں 300 لوگ سوار ہوگئے، ہمارے جہازمیں نہ ہی ایندھن تھا اورنہ ہی پائلٹ ، میں نے جہاز سے اترنے کا فیصلہ کرلیا اور ایک فوجی طیارے کو دیکھا جس کولوگوں نے گھیر رکھا تھا۔انہوں نے کہا کہ شہری جہاز میں سوار ہونا چاہتے تھے لیکن گارڈز نے انہیں دور رکھا ، وہاں بہت رش تھا گولیاں چلنے کی آوازیں بھی سنائی دیں تاہم میرے قریبی ساتھیوں نے کسی طرح مجھے سوار کروا دیا، اس معاملے کاانجام اس طرح نہیں ہونا چاہیے تھا، مجھے افغان قیادت کی جانب سے پلاننگ کی کمی بہت بری لگی۔اجمل احمدی نے بتایا کہ میں نے صدارتی محل رابطہ کیا اور پوچھا کہ نکلنے کا کیا منصوبہ ہے ، لیکن 7سال کی سروس کے بعد مجھے جواب میں صرف خاموشی ملی۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں