اسلام آباد(پی این آئی)نجی ٹی وی پروگرام میں گفتگو کرتے ہویے تحریک طالبان افغانستان کے ترجمان سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ جو بھی مذاکرات کی میز پر فیصلہ ہوگا وہ ہمیں قبول ہوگا لیکن نظام اسلامی ہوگا مفاہمت مذاکرات کے ذریعے حل کو پہنچے یہ ہماری پالیسی ہے اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ٹی وی چینلز پر حکومت کا احتساب ہوسکے گا تنقید بھی ہوگی اور خواتین اس میں پردے کے بغیر نہیں آسکیں گی، ہم انڈیا سے چاہتے ہیں کہ وہ افغانستان کے مسئلے میں غیر جانبدار رہے۔پاکستان ہمارا پڑوسی اور مسلمان بھی ہے پائیدار امن کے حوالے سے وہ مشورہ دے سکتے ہیں مدد کرسکتے ہیں لیکن کوئی بھی ہمیں ڈکٹیشن دے یہ ہمارے اصولوں کے خلاف ہے اور عالمی اصولوں کے مطابق بھی نہیں ہے۔اسلامی امارات کی پالیسی یہ ہے کہ کوئی بھی فرد ہو یا گروپ ہو ہم افغانستان کی سرزمین کو کسی کے خلاف استعمال نہیں ہونے دینگے۔ہم ٹیکنالوجی کے خلاف نہیں ہیں اگر اسلامی نظام آجائے تو ہم سائنس اور ٹیکنالوجی کی کوشش کریں گے اور یہ اسلام کے مطابق ہے ۔جو اضلاع ہمارے قبضے میں آگئے ہیں ہم نے یہی بیان دیا ہے کہ اس علاقے میں جو میڈیا یا اخبار ہیں ان کو فنکشنل ہونا چاہئے جیسے ماضی میں تھے اور بھی چینلز آجائیں اس میں کوئی مضحکہ نہیں ہے لیکن اس کا مواد ہماری روایت و سوسائٹی کے مطابق ہوگا۔ ویسٹرن سوسائٹی تو بعد میں آئی ہے اسلام نے ہمیں آزادی بیان کی تعلیم دی ہے۔افغانستان میں ایک پارٹی افغانستان میں پرامن حکومت نہیں کرسکتا یہ ہمارا ویو ہے اس کے مطابق ہم نے پالیسی بنائی ہے اور دوسرے ممالک کی مداخلت افغانستان میں بند ہونی چاہئے۔ یہ سارے افغان اکٹھے ہوں اور ایک اسلامی افغان حکومت کو بنائے۔جمہوریت وغیرہ جو بھی لانا چاہتے ہیں لائیں ہم اپنا ایجنڈا مسلط نہیں کرتے ہم کہتے ہیں جو بھی مذاکرات کی میز پر فیصلہ ہوگا وہ ہمیں قبول ہوگا لیکن نظام اسلامی ہوگا۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں