مکمل لاک ڈائون کے دوران وائٹ ہاوس میں خفیہ نائی کی دکان کا انکشاف

واشنگٹن(آئی این پی)وائٹ ہاوس میں خفیہ نائی کی دکان کا انکشاف ہوا ہے، کورونا وائرس کی پھیلا نے کے آغاز پر مکمل لاک ڈاون کے دوران وائٹ ہاوس میں خفیہ نائی کی دکان شروع کی گئی جہاں خاتون مردوں کے بال کاٹتیں اور بال کٹوانے کے 70ڈالر وصول کیے جاتے۔امریکی میڈیا کے مطابق وائٹ ہاوس میں خفیہ نائی کی دکان باتھ روم میں قام کی گئی جہاں لوگوں کے بال کاٹے گئے،ملک بھر میں کورونا وائرس کے شدید پھیلا نے کے باعث کاروبار اور

مارکیٹیں بند ہو گئی تھیں تو حجامت کے دکان قائم کی گئی جو بال کٹوانے کی واحد جگہ تھی،بال کاٹنے کے دو ایشیائی خواتین کو رکھا گیا تھا،بال کٹوانے کے لیے پہلے ای میل کی جاتی جس کے بعد ای میل کرنے والے شخص کے بال کاٹے جاتے،سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ملازمین کو بال کٹوانے کے لیے 45ڈالر، شیو کے لیے 25ڈالر اور خط بنوانے کے 15ڈالر ادا کرنے ہوتے تھے،1972میں بھی وائٹ ہاس کے بیسمینٹ میں نائی کی دکان قائم کی گئی تھی۔ پیپلزپارٹی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان لڑائی، سینئر صحافی نے دلائل دیتےہوئے بڑا دعویٰ کر دیا لاہور(پی این آئی) پیپلزپارٹی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان لڑائی نہ ہونے کا امکان ہے، پیپلزپارٹی کی سندھ میں حکومت اور سینیٹ میں زیادہ ارکان ہیں، پیپلزپارٹی پی ڈی ایم کے ساتھ مل کر اسٹیبلشمنٹ سے خواہ مخواہ کی لڑائی نہیں چاہتی۔ سینئر تجزیہ کارطلعت حسین نے اپنے تجزیے میں کہا کہ پیپلزپارٹی کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات بڑے پرانے ہیں، سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو بڑی طاقتور اور مقبول تھیں، لیکن پھر بھی وہ اسٹیبلشمنٹ سے بات چیت کرکے واپس آئیں، لیکن تعلقات سے مراد یہ نہیں سیاسی طور پرمکمل بچت ہوجائے گی۔آصف زرداری کے بڑے پرانے روابط ہیں، اس میں لڑائی ہونے کا امکان نہ ہونے کے برابر ہےپیپلزپارٹی طاقت میں ہے، سندھ میں حکومت ہے سینیٹ میں زیادہ سیٹیں ہیں۔پیپلزپارٹی نہیں چاہتی کہ اسٹیبلشمنٹ سے خواہ مخواہ لڑائی جاری رکھے۔ پیپلزپارٹی نے پی ڈی ایم کے ساتھ ہاتھ کیا لیکن یہ احمقانہ فیصلہ کیا ۔اتفاق کرتا ہوں کہ ثاقب نثار جیسے لوگ جج بن جاتے ہیں، ان کو سیٹ کا تحفظ حاصل ہوجاتا ہے اور وہ اس سیٹ کو اپنی کھوکھلی عزت کیلئے استعمال کرتے ہیں، صرف ثاقب نثار نہیں ایسے کئی لوگ ہیں۔لیکن ایک دن عہدے کا تحفظ ختم ہوجاتا ہے پھر احساس ہوتا ہے کہ اس بندے نے کیا کام کیے؟ حقائق قوم کو بتانے کی ضرورت نہیں، ان کو خود پتا ہے، اگر قوم کو حقائق نظر نہیں آرہے معاشی اور معاشرتی حقائق

سمجھ نہیں آرہے تو پھر اللہ ہی حافظ ہے، اور پھر کوئی بڑا حادثہ ہی سمجھائے گا۔بہت سارے لوگ ملک سے باہر ہیں، ان کے پیٹ بھرے ہوئے ہیں، وہ پاکستانی سیاست کو باہر بیٹھ کرحقائق دیکھنا شروع کردیتے ہیں، کہتے ہیں کہ اتنے بھی حالات خراب نہیں ہیں، لیکن جب وہ پاکستان میں رہیں گے تو پھر پتا چلے گا لوگ کس طرح رہ رہے ہیں، اگر مہنگائی، بجلی گیس کے بل نہیں سمجھا رہے تو پھر پتا نہیں کیسے سمجھیں گے۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں