بھارت میں کسانوں کی حمایت پر ششی تھرور سمیت 7 صحافیوں پر بغاوت کے مقدمات قائم کر دیئے گئے

نئی دہلی(این این آئی)دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے خود ساختہ دعوے دار بھارت میں مودی سرکار کو تنقید کا نشانہ بنانے پر اپوزیشن رہنما ششی تھرور سمیت کئی سرکردہ صحافیوں کے خلاف بغاوت کے مقدمات درج کرلیے گئے۔عالمی میڈیا کے مطابق بھارتی ریاست اترپردیش اور مدھیہ پردیش کی پولیس نے کانگریس

پارٹی کے سرکردہ رہنما ششی تھرور اور ملک کے دیگر 6 سرکردہ صحافیوں کے خلاف بغاوت کے مقدمات درج کیے ہیں تاہم کوئی گرفتاری عمل میں نہیں لائی گئی۔الزام ہے کہ انہوں نے 26 جنوری کو بھارت کے یوم جمہوریہ کے موقع پر کسانوں کی ٹریکٹر ریلی کو نئی دہلی میں داخلے اور لال قلعے کے گنبد پر سکھوں کے پرچم کو لہرانے کے لیے مظاہرین کو اکسایا اور پْرتشدد مظاہروں کی ترغیب دی تھی جن صحافیوں پر بغاوت کے مقدمات قائم کیے گئے اْن میں معروف صحافی راج دیپ سر دیسائی، نیشنل ہیرالڈ کے ایڈیٹر مرنال پانڈے، قومی آوازا کے مدیر ظفر آغا اور کارواں میگزین سے وابستہ اننت ناتھ اور ونود جوز کے نام بھی شامل ہیں۔ اپوزیشن جماعت نے اپنے رہنما ششی تھرور اور اعلیٰ پایہ کے صحافیوں پر بغاوت مقدمات کو بزدلانہ عمل کردیا۔دوسری جانب صحافیوں کی تنظیم ’’ایڈیٹرز گلڈ‘‘ نے بھارتی حکومت کے اس ظالمانہ اقدام کو آزادی صحافت پر حملہ قرار دیتے ہوئے شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔۔۔۔ چین نے بھارت کے 90ہزار مربع کلو میٹر پر قبضہ کر لیا نئی دہلی (پی این آئی)بھارت نے کہا ہے کہ چین کے ساتھ تعلقات سرحدی تنازع کے بعد بیچ چوراہے پر ہیں۔ بھارت کے وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر نے بھارت-چین تعلقات کے موضوع پر ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سرحدی علاقوں میں امن کی بنیاد دیگر شعبوں میں تعلقات کی بہتری

پر ہے۔ان کا کہنا تھا کہ جو حالات ہوئے اس کے اثرات بھی ہوں گے جو صرف دونوں ممالک کے لیے نہیں بلکہ پوری دنیا کے لیے ہوں گے۔جے شنکر نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان گزشتہ دہائیوں میں بہتری کی رفتار سست رہی ہے اور چین، بھارت کا سب سے بڑا کاروباری شراکت دار بن گیا تھا۔چین اور بھارت کے درمیان تجارت کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ سرمایہ کاری، ٹیکنالوجی، منصوبوں میں شراکت داری اور انفراسٹرکچر کی بحالی کے ساتھ ساتھ سیاحت اور تعلیم میں ایک دوسرے کے شراکت دار رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ بھارت کو چین کے مؤقف میں واضح تبدیلی کا انتظار ہے یا سرحد پر فوجیوں کی تعیناتی کی وجوہات درکا ہیں۔بھارتی وزیر خارجہ نے بتایا کہ یہ ایک الگ معاملہ ہے کہ ہماری فورسز اپنے دفاع میں جوابی وار کر رہی ہیں اور اس سے انہیں سخت چیلنج کا سامنا ہے۔دوسری جانب چین سے اس بیان کے جواب میں کوئی ردعمل نہیں آیا۔خیال رہے کہ بھارت اور چین کی سرحدیں ہمالیہ سے ملتی ہیں اور دونوں ممالک میں طویل عرصے سے سرحدی تنازع جاری ہے، دونوں ایک دوسرے پر الزامات عائد کرتے رہتے ہیں۔چین، بھارت کے شمال مشرقی علاقے میں 90 ہزار مربع کلومیٹر کا دعویٰ کرتا ہے جبکہ بھارت کا کہنا ہے کہ چین نے مغربی ہمالیہ میں اس کے 38 ہزار مربع کلومیٹر پر قبضہ کر رکھا ہے اور اس سرحدی تنازع پر دونوں ممالک کے

متعلقہ حکام درجنوں ملاقاتیں کرچکے ہیں لیکن اس کا کوئی حل نہیں نکل سکا۔دونوں ممالک کے درمیان5 مئی 2020 کو مشرقی لداخ میں خطرناک تصادم ہوا تھا جس کے بعد 9 مئی کو دونوں ممالک کے فوجیوں کے درمیان تصادم ہوا تھا جس کے نتیجے میں متعدد فوجی زخمی ہوئے تھے۔بعد ازاں جون میں دونوں فوجوں کے درمیان ہونے والے تصادم میں 20 بھارتی فوجیوں کے ساتھ ساتھ نامعلوم تعداد میں چینی فوجی بھی مارے گئے تھے۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں