لندن (این این آئی)آسترازینیکا اور آکسفورڈ یونیورسٹی نے ایک مینوفیکچرنگ غلطی کا اعتراف کیا ہے جس سے ان کی تجرباتی کووڈ 19 ویکسین کے آخری مرحلے کے ابتدای نتائج پر سوالات سامنے آئے ہیں۔اس غلطی کا اعتراف اس وقت کیا گیا جب رواں ہفتے اس ویکسین کو کووڈ 19 سے تحفظ کے لیے 70 سے 90
فیصد تک موثر قرار دیا گیا تھا مگر ان نتائج میں یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ آخر کچھ رضاکاروں کو ویکسین کا پہلا ڈوز کم مقدار میں کیوں دیا گیا تھا، مگر یہ بتایا گیا تھا کہ حیران کن طور پر کم ڈوز استعمال کرنے والے افراد کو وائرس کے حوالے سے 90 فیصد تک تحفظ ملا۔اس کے مقابلے میں یکساں مقدار والے 2 ڈوز استعمال کرنے والے گروپ میں یہ شرح 62 فیصد تک رہی اور مجموعی طور پر اوسطاً 70 فیصد تک تحفظ ملا،ان نتائج پر طبی حلقوں کی جانب سے سوالات اٹھائے گئے تھے۔25 نومبر کو ایک بیان میں آکسفورڈ یونیورسٹی نے بتایا کہ درحقیقت کم ڈوز کا استعمال کرانا ٹرائل کا حصہ نہیں تھا بلکہ یہ غلطی سے ہوا۔بیان کے مطابق ٹرائل کے لیے استعمال ہونے والی کچھ وائلز میں ویکسین کا تناسب درست نہیں تھا تو کچھ رضاکاروں کو آدھا ڈوز دیا گیا۔برطانوی یونیورسٹی نے بتایا کہ اس کی جانب سے اس مسئلے پر ریگولیٹرز سے تبادلہ خیال کیا گیا اور اس کے بعد آخری مرحلے کے ٹرائل 2 گروپس پر مکمل کرنے پر اتفاق کیا گیا، جبکہ مینوفیکچرنگ مسئلے کو ٹھیک کرلیا گیا۔2 ہزار 741 افراد کو پہلا ڈوز کم مقدار میں دیا گیا تھا جس کے 28 دن بعد دوسرا ڈوز مکمل دیا گیا جبکہ 8 ہزار 895 افراد کو 2 مکمل ڈوز دیئے گئے۔کم ڈوز والے گروپ میں کسی بھی فرد کی عمر 55 سال سے زیادہ نہیں تھی اور ماہرین کے مطابق جوان افراد کا مدافعتی ردعمل بزرگ افراد کے مقابلے میں زیادہ مضبوط ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ کم ڈوز والے گروپ میں ویکسین بہت زیادہ موثر نظر آئی کیونکہ ان کا مدافعتی نظام بھی مضبوط تھا۔آکسفورڈ یونیورسٹی کے محققین نے بھی کہا تھا کہ واضح نہیں کہ کم ڈوز میں یہ ویکسین زیادہ موثر کیوں رہی اور اس کی وجہ جاننے کے لیے کام کیا جارہا ہے۔آکسفورڈ ویکسین کی تیاری میں شامل سارہ گلبرٹ کا کہنا تھا کہ اس سوال کے جواب سے ممکنہ طور پر معلوم ہوسکے گا کہ ویکسین کی کتنی مقدار بہترین مدافعتی ردعمل میں مدد دے سکے گی۔ٹرائل کے نتائج طبی جریدوں میں شائع ہوں گے اور برطانوی ریگولیٹرز کو فراہم کیے جائیں گے جو فیصلہ کریں گے کہ عام افراد کے لیے ویکسین استعمال کی جانی چاہیے یا نہیں۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں