واشنگٹن(پی این آئی) امریکا کی ریاست پینسلوینیا نے نتائج کا اعلان کردیا ہے جس کے بعد ریاست 20الیکٹرول کالج ملنے سے جوبائیڈن کے الیکٹرول کالج کے 273ووٹ حاصل کرکے امریکا کے 46ویں صدر منتخب ہوگئے ہیں جبکہ ان کے مدمقابل ری پبلکن امیدوار ڈونلڈ جے ٹرمپ کو اب تک 214ووٹ
الیکٹرول ووٹ ملے ہیں۔امریکا کے نیم سرکاری نشریاتی ادارے کے مطابق ریاست پینسلوینیا کے نتائج کے بعد اب تک 45 ریاستوں اور دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی کے غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج کا اعلان ہوچکا ہے ان ریاستوں کے نتائج کے مطابق جو بائیڈن نے 273 الیکٹرول ووٹ حاصل کرلیے ہیں جبکہ ایسوسی ایٹیڈ پریس(اے پی) کے مرتب کردہ نتائج کے مطابق جو بائیڈن کے اب تک حاصل کردہ الیکٹرول ووٹوں کی تعداد290ہے.امریکہ میں رائج انتخابی نظام کے تحت صدر کا انتخاب پاپولر ووٹوں کے بجائے الیکٹرول کالج کے ذریعے کیا جاتا ہے اور کسی بھی امیدوار کو صدر منتخب ہونے کے لیے الیکٹورل کالج کے 538 ووٹوں میں سے کم از کم 270 ووٹ درکار ہوتے ہیں پانچ ریاستوں نارتھ کیرولائنا، جارجیا، ایریزونا، نیواڈا اور الاسکا میںابھی تک ووٹوں کی گنتی مکمل نہیں ہوئی ان ریاستوں میں سے بھی جارجیا، ایریزونا اور نیواڈا میں جو بائیڈن کو اپنے ری پبلکن حریف صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر برتری حاصل ہے جبکہ ریاست الاسکا میں ڈونلڈٹرمپ کو بھاری برتری حاصل ہے اس ریاست کے 3الیکٹرول ووٹ ہیں کامیابی کے بعد جو بائیڈن کے حامیوں امریکہ بھر میں فتح کا جشن منا رہے ہیں‘ادھر کاملا ہیرس امریکی تاریخ کی پہلی خاتون نائب صدر منتخب ہوئی ہیں جو بائیڈن 20 جنوری کو اپنے عہدے کا حلف ا±ٹھائیں گے.ادھر ری پبلکن امیدوار نے نتائج کو مسترد کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں جانے کا پھر سے اعلان کیا انہوں نے 3نومبر کی رات وائٹ ہاؤس میں اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے نتائج کے خلاف سپریم کورٹ جانے کا اعلان کیا تھا تاہم اس کے بعد انہوں نے خاموشی اختیار کرلی تھی ری پبلکن امیدوار کی جانب سے مختلف ریاستوں میں ووٹوں کی گنتی کے حوالے سے پہلے ہی 300سے زائد کیس دائر ہیں .ڈونلڈ ٹرمپ انتخابات میں ووٹنگ میں فراڈ اور بے ضابطگیوں کے الزامات عائد کررہے ہیں جبکہ ریاستوں کے حکام اور امریکا کے متعلقہ اداروں کے وفاقی حکام نے بھی صدر ٹرمپ کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اپنے الزامات کے حق میں کوئی ثبوت پیش نہیں کرسکے. سابق نائب صدر اور نومنتخب امریکی صدرنے امریکا کے سابق صدور بل کلنٹن ‘باراک اوبامہ سابق وزیرخارجہ اور 2016میں ٹرمپ کے مقابلے میں صدارتی امیدوار ہیلری کلنٹن سمیت
حکومتی عہدوں پر فائزرہنے والے اہم ڈیموکریٹس راہنماؤں کے ساتھ مشاورت شروع کردی ہے اور کہا جارہا ہے کہ صدر اوباما کے دور میں وائٹ ہاؤس میں اہم ذمہ داریاں انجام دینے والے کئی چہرے دوبارہ وائٹ ہاؤس میں نظر آئیں گے اسی طرح مشیران کے تقرر کے لیے بھی جوبائیڈن پارٹی کے اہم راہنماؤں سے مشورے لے رہے ہیں .77سالہ بائیڈن کا پورا نام جوزف روبینیٹ بائیڈن جونیئرہے اور وہ امریکی سیاست میں کئی دہائیوں سے سرگرم ہیں انہوں نے8 سال تک صدر باراک اوباما کے ساتھ بطور نائب صدر کام کیا اگر انہیںامریکی تاریخ کے معمر ترین صدر کا اعزازبھی حاصل ہوگیا ہے. بائیڈن 20نومبر1942کو ریاست پنسلوانیا کی لاککواننا کاؤنٹی میں پیدا ہوئے 1953میں ان کا خاندان ریاست ڈیلاویئر کے شہرویمیگٹن منتقل ہوگیا اس سے قبل بائیڈن خاندان کچھ سالوں کے لیے واشنگٹن ڈی سی کے ساتھ ریاست میری لینڈ میں بھی رہائش پذیررہا جو بائیڈن نے ڈیلاویئر یونیورسٹی اور سیراکیوز سکول آف لا سے ڈگری حاصل کی اور 1972 میں محض 29 سال کی عمر میں وہ امریکی سینیٹ کے رکن منتخب ہوئے لیکن اس کامیابی کے کچھ ہی ہفتوں بعد بائیڈن کو
ایک خاندانی المیے کا سامنا کرنا پڑا جب ان کی اہلیہ اور ایک سالہ بیٹی کرسمس کی شاپنگ کے دوران گاڑی کے حادثے میں ہلاک ہو گئیں.اس سانحے کے بعد انہوں نے اپنے دو بیٹوں کی دیکھ بھال کی خاطر 36 سال تک روزانہ ڈیلاویئر اور واشنگٹن کے درمیان ٹرین کا سفر کیا تاکہ رات اپنے بچوں کے ساتھ گزار سکیں انہوں نے 2008 میں امریکہ کا نائب صدر منتخب ہونے تک یہ معمول برقرار رکھا بعدازاں وہ واشنگٹن منتقل ہو گئے اپنی بیوی کی ہلاکت کے کئی سال بعد بائیڈن نے جل جیکب ٹریسی سے دوسری شادی کی جل بائیڈن تعلیم کے شعبے سے منسلک ہیں.بائیڈن 1987 اور 2007 میں پارٹی کی صدارتی نمائندگی حاصل کرنے کے خواہاں رہے لیکن دونوں بار وہ کامیاب نہ ہو سکے لیکن 2008 میں باراک اوباما نے انہیں اپنے ساتھ بطور نائب صدر نامزد کیا 2012 میں وہ دوبارہ ووٹرز کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب رہے. بائیڈن نے سینیٹ کی کئی کمیٹیوں کی سربراہی کی انہیں امریکا میں سیاست کا وسیع تجربہ رکھنے والے سیاست دان کے طور پر بھی جانا جاتا ہے تاہم ان کے قریبی رفقاءکا کہنا ہے کہ وہ اہم امور میں مشاورت کے قائل ہیں اور صدر اوبامہ کے سیاست میں جونیئرہونے کے باوجود جہاں وہ انہیں اہم امور پر مشورے دیتے تھے وہیں وہ ان سے
مشورے لیتے بھی تھے سینیٹ میں رہتے ہوئے بائیڈن طویل عرصے تک خارجہ تعلقات کمیٹی کے رکن اور دو بار اس کے چیئرمین بھی رہے.انہوں نے بھارت میں متنازع شہریت بل کو ملک کے سیکولر تشخص کے منافی قرار دیتے ہوئے اس پر مایوسی کا بھی اظہار کیا افغانستان کے حوالے سے بائیڈن کہتے ہیں کہ وہ ذمہ دارانہ انداز میں وہاں سے امریکی فوجیوں کا انخلا چاہتے ہیںسیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ بائیڈن امریکہ کے صدر بننے سے صحت اور اقتصادی شعبوں اور چین، ایران اور نیٹو سمیت کئی خارجہ امور پر ان کی پالیسیاں اوباما دور کا تسلسل ہو سکتی ہیں.امریکہ میں بعض سوئنگ ریاستوں میں امیدواروں کے درمیان ووٹوں کا فرق کم ہونے کے باعث دوبارہ گنتی کے مطالبات سامنے آ رہے ہیں امریکہ میں دیگر قوانین کی طرح مختلف ریاستوں میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا طریقہ کار بھی الگ الگ ہے کہ امریکی انتخابات میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے والی ریاستیں جنہیں “سوئنگ اسٹیٹس“ دوبارہ گنتی کا طریقہ کار بھی ایک دوسرے سے مختلف ہے‘ ریاست جارجیا میں، جہاں ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا فیصلہ کیا گیا ہے، اگر امیدواروں کے درمیان 0.5 فی صد ووٹوں کا فرق ہے تو امیدوار دوبارہ گنتی کی درخواست دے سکتا ہے ریاستی قوانین کے تحت دو روز میں گنتی کا
عمل مکمل کرنا لازمی ہے البتہ ریاستی قوانین میں یہ واضح نہیں کہ دوبارہ گنتی کے اخراجات کون برداشت کرتا ہے.ادھر امریکہ کی مختلف ریاستوں میں ممکنہ پرتشددمظاہروں کے پیش نظر پولیس کی بھاری نفری کے ساتھ نیشنل گارڈز اور دیگر قانون نافذکرنے والے اداروں کو تعینات کردیا گیا ہے خصوصاووٹوں کی گنتی پر مامور پولنگ عملے اور مراکزکی سیکورٹی کو انتہائی سخت کردیا گیا ہے جسے امریکا میں لیول 5سیکورٹی کہا جاتا ہے. ریاست پینسلوینیا کے سب سے بڑے شہر فلاڈیلفیا اور ایریزونا کے شہر فینکس تک الیکشن دفاتر کے قریب پولیس اہلکاروں کی بڑی تعداد تعینات ہے جو سرکاری دفاتر اور سکولوں میں گنتی پر مامور پولنگ عملے کو سیاسی جماعتوں کے مظاہرین سے دور رکھنے میں کوشاں ہے حکام کا کہنا ہے کہ اب تک مجموعی صورتِ حال قابو میں ہے تاہم جوں جوں گنتی کا عمل مکمل ہو رہا ہے سیاسی تناؤبھی بڑھ رہا ہے.ریاست نیواڈا کی کلارک کاؤنٹی میں ووٹرز رجسٹرار جو گلوریا نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان کا عملہ عمارت سے باہر جاتے ہوئے خوف محسوس کر رہا اور وہ حق بجانب بھی ہے کیوں کہ باہر سیاسی جماعتوں کے جوشیلے کارکن موجود ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ ہمارے تحفظ کے لیے کاو¿نٹی پولیس کے علاوہ دیگر سیکیورٹی اداروں کے اہلکار بھی موجود ہیں اور ہم ان انتظامات سے مطمئن ہیں.امریکی ریاست ایریزونا کے شہر فینکس کے انتخابی دفتر کے باہر ری پبلکن اور ڈیمو کریٹک جماعتوں کے کارکنوں کے درمیان جھڑپیں ہوئی ہیں تاہم حکام کا کہنا ہے کہ وہ امن و امان برقرار رکھنے کے لیے تمام تر وسائل بروئے کار لا رہے ہیں حکام کا کہنا ہے کہ امن و امن میں خلل ڈالنے کی کوشش کرنے کے الزام میں بعض افراد کو حراست میں بھی لیا گیا ہے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں