نئی دہلی (این این آئی)بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر کے لیے زمینوں سے متعلق قانون میں ترامیم متعارف کروا دی ہیں جس کے تحت بھارت کی کسی بھی ریاست کا شہری مقبوضہ علاقے میں اراضی حاصل کر پائے گا۔بھارت کے مقامی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق بھارت کی وزارت داخلہ کی جانب سے جاری نوٹی فکیشن
میں کہا گیا کہ نیا قانون ‘یونین ٹریٹری آف جموں و کشمیر ری آرگنائزیشن(ایڈاپٹیشن آف سینٹرل لاز) تھرڈ آرڈر 2020 کا نفاذ فوری طور پر ہوگا۔اس سے قبل مقبوضہ جموں و کشمیر کے مستقل رہائشی ہی خطے میں اراضی خرید سکتے تھے لیکن اب اس قانون کو بھی ختم کردیا گیا ہے۔خیال رہے کہ 5 اگست 2019 کو بھارت کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی جانب سے آرٹیکل 370 کے تحت حاصل مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد دیگر کئی قوانین بھی متعارف کروائے جاچکے ہیں۔بی جے پی حکومت نے قانون بنایا تھا کہ بھارت کی کسی بھی ریاست کا شہری مقبوضہ خطے میں جائیداد بنا سکتا اور ملازمت بھی حاصل کرسکتا ہے۔ مقبوضہ جموں و کشیر کے سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے بھی ٹوئٹر پر اپنے بیان میں بی جے پی حکومت کے اس اقدام کی شدید مذمت کی۔انہوں نے کہا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کی زمینوں کی ملکیت کے حوالے سے ترامیم ناقابل قبول ہیں، ڈومیسائل قانون کے تحت بھی غیر زرعی اراضی کی خریداری اور زرعی اراضی کی منتقلی کو آسان بنا دیا گیا تھا یہاں تک کہ وہ بھی ختم ہوگیا۔عمر عبداللہ نے کہا کہ اب مقبوضہ جموں و کشمیر کو برائے فروخت کردیا گیا ہے، جس سے غریب زمین داروں کو مشکلات کا سامنا ہوگا۔مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کے اقدامات کے خلاف احتجاج ہوتا رہا ہے تاہم 5 اگست 2019 کے بعد بڑے پیمانے پر پابندیاں اور لاک ڈاؤن جاری ہے۔نریندر مودی کی حکومت نے رواں برس کے اوائل میں مقبوضہ جموں و کشمیر کے لیے ڈومیسائل کا نیا قانون بنایا تھا جس کے تحت جموں و کشمیر میں 15 سال سے مقیم فرد اپنے ڈومیسائل میں مقبوضہ علاقے کو اپنا آبائی علاقہ قرار دے سکے گا۔جموں و کشمیر سول سروسز ایکٹ میں واضح کیا گیا کہ ڈومیسائل میں مقبوضہ علاقہ کو اپنا آبائی علاقہ قرار دینے والے شخص کے لیے ضروری ہے کہ وہ جموں و کشمیر کے وسطی علاقے میں 15 سال تک رہائش اختیار کرچکا ہو یا 7 سال کی مدت تک تعلیم حاصل کی ہو یا علاقے میں واقع تعلیمی ادارے میں کلاس 10 یا 12 میں حاضر ہوا اور امتحان دیے ہوں۔اس سے قبل مذکورہ جموں و کشمیر کے آئین کی دفعہ 35 اے میں شہری سے متعلق تعریف درج تھی کہ صرف اسی شخص کو مقبوضہ جموں اور کشمیر کا ڈومیسائل جاری کیا جائے گا جو مقبوضہ علاقے میں ریلیف اینڈ ریبلٹیشن کمشنر کے پاس بطور تارکین وطن رجسٹرڈ ہو۔نئے قانون میں بھی مرکزی حکومت کے عہدیداران بشمول آل انڈیا سروسز آفیسرز، پی ایس یوز اور مرکزی حکومت کے خود مختار ادارے کے عہدیداران، پبلک سیکٹر کے بینکوں و مرکزی جامعات کے عہدیداران، مرکزی یونیورسٹیز کے عہدیداران اور مرکزی حکومت کے تسلیم شدہ تحقیقی اداروں کے بچے بھی شامل ہیں جنہوں نے جموں و کشمیر میں 10 سال کی مدت تک خدمات انجام دی ہیں یا ایسے والدین کے بچے جو سیکشن میں کسی بھی شرائط کو پورا کرتے ہیں۔مقامی افراد کو بھی مستقل شہریت کے لیے نئے ڈومیسائل کے لیے درخواست دینا ہوگی، اس کے لیے انہیں مستقل رہائشی سرٹیفکیٹ (پی آر سی) دکھانا ہوگی، جس کا اطلاق 1927 سے ہوگا جبکہ پی آر سی اس کے بعد بے معنی ہوجائے گا۔بھارت میں اس قانون کے نفاذ کے بعد احتجاج شروع ہوا تھا کیونکہ 20 کروڑ مسلمانوں کو خوف ہے کہ نریندر مودی بھارت کو ایک ہندو ریاست بنانے کے درپے ہیں جبکہ نریندر مودی نے اس کی تردید کردی تھی۔۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں