لندن(پی این آئی)دوسری لہر شروع ہوتے ہی کورونا وائرس کی ساخت میں رونما ہونے والی خطرناک تبدیلیوں کا انکشاف، سائنسدان پریشان ہو گئے،امریکا میں ہونے والی نئی تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ کروناوائرس کے جینیاتی کوڈ میں کئی ہزار خاموش تبدیلیاں رونما ہوئیں جس کے باعث مہلک وائرس دنیا بھر میں خطرناک
ثابت ہوا ہے۔غیرملکی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق تحقیق کے دوران امریکی سائنس دانوں نے وائرس کے جینیاتی کوڈ میں 30 ہزار کے قریب خاموش تبدیلیوں کو شناخت کیا، اور اس تبدیلی نے ممکنہ طور پر وائرس کو جانوروں(چمگادڑ یا پینگولینز) سے انسانوں میں منتقل ہونے میں مدد فراہم کی۔تحقیق کے مطابق انہیں تبدیلیوں کی وجہ سے کروناوائرس عالمی وبا بنا اور خطرناک ثابت ہوا ہے۔ ان تبدیلیوں کی بدولت ہی وائرس اپنے ‘آر این اے مالیکیولز’ کے ذریعے انسانی خلیات کو دھوکا دیتا ہے۔یہ تحقیق ڈیوک نامی امریکی یونیورسٹی میں ہوئی، جس میں کہا گیا کہ وائرس کے جینیاتی کوڈ میں آنے والی تبدیلیوں سے اس کے ‘اسپائیک پروٹینز’ بھی تبدیل ہوئے، جس کی بدولت وائرل اقسام ان تبدیلیوں کے ساتھ زیادہ پھیلنے پھولنے میں کامیاب رہی، کرونا کے جینوم کے دو حصوں میں 30 ہزار کے قریب خاموش تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ان تبدیلیوں کو این ایس پی 4 اور این ایس پی 16 کا نام دیا گیا ہے۔تحقیق میں شامل محققین کا کہنا تھا کہ یہ تبدیلیاں وائرس کے پروٹین کے بجائے جنیاتی مواد پر اثر انداز ہوتی ہیں، جن سے آر این اے (وائرس کا مالیکیول) بنا جو انسانی خلیات کے اندر مختلف شکلیں بدلنے اور افعال کی صلاحیت رکھتا ہے۔انہوں نے بتایا کہ یہ تبدیلی وائرس کے پھیلاؤ کا اہم سبب بھی بنی، یہی وجہ ہے کہ موجودہ صورتحال نے 2003 میں سارس کے مقابلے میں کرونا وائرس کو زیادہ مشکل بنا دیا ہے۔ماہرین کا مزید کہنا تھا کہ دو حصوں پر مشتمل نئی تبدیلیاں(این ایس پی 4 اور این ایس پی 16) ان اولین آر این اے مالیکیولز میں سے ایک ہیں جو اس وقت بنتے ہیں جب وائرس کسی نئے فرد کو متاثر کرتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں