امارات ، اسرائیل تعلقات ، خطے میں جنگ چھڑنے کا خطرہ عرب بادشاہتیں شدید خوفزدہ ، چونکا دینے والے انکشافات

لاہور(پی این آئی) متحدہ عرب امارات نے جب پچھلے ہفتے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا تو مسلم دنیا میں کئی طرح کا ردِعمل دیکھنے میں آیا کسی نے اسے فلسطینیوں کے ساتھ دھوکہ کہا تو کوئی اسے تاریخی معاہدہ قرار دیتا رہا اور باخبر حلقوں نے دونوں ریاستوں کے تعلقات میں ”نارملائزیشن‘ ‘کو”فارملائزیشن“ کے طور پر دیکھا۔ اسرائیل اور عرب امارات کے باضابطہ سفارتی تعلقات ک

ا معاہدہ اس قدر سادہ معاملہ نہیں بلکہ اس معاہدے کے بعد خطے میں ایک اور جنگ کے ساتھ ساتھ کئی مسلم ریاستوں میں عرب بالادستوں کے ذریعے فوجی بغاوت کے خدشات بھی بڑھ گئے ہیں سب سے پہلا محرک عرب بادشاہتوں کا خوف ہے جو عرب بہار کے دوران پیدا ہوا. عرب بہار کے دوران بادشاہتوں کو اندازہ ہوا کہ پولیٹیکل اسلام ان کے لیے بڑا خطرہ ہے، اور جبر اور کرپشن کے خلاف کوئی بھی مقبول تحریک ان کی بادشاہتوں کے لیے خطرہ بن سکتی ہے یہاں تک کہ امریکا جیسی عالمی طاقت بھی اپنے کٹر اتحادی حسنی مبارک کو ایسی تحریک میں کوئی مدد نہ فراہم کرسکی اور اخوان المسلمین کی مقبول تحریک نے اس کا تختہ الٹ دیا پھر اس دوران تیونس، سوڈان سمیت کئی مثالیں ابھر کر سامنے آئیں.بین القوامی نشریاتی ادارے کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ عرب بہار کے بعد خطے میں سیکیورٹی صورتحال بھی بدلنے لگی امریکا کوشش کے باوجود شام کے صدر بشارالاسد کو ہٹانے میں ناکام رہا سعودی عرب کی تیل تنصیبات پر حملے کے بعد بھی امریکا نے سعودی عرب کی مدد کے لیے کوئی فوجی قدم نہ اٹھایاعرب بادشاہتیں جو اپنی بقا کے لیے امریکا اور یورپی اتحادیوں پر عشروں سے انحصار کرتی آئی ہیں انہیں احساس ہوا کہ اب یہ اتحادی شاید ان کے کام نہ آسکیں۔ ایران نے خطے میں پراکسی جنگ تیز کی اور اسے لبنان، شام اور عراق سے بڑھا کر یمن تک لے گیا، جس کے بعد عرب بادشاہتوں کو خطرے کا احساس بڑھ گیا سابق امریکی صدر بارک اوباما کے دور میں ایران کے جوہری پروگرام پر معاہدے نے عرب ریاستوں میں خوف پیدا کردیا تھا اور انہیں لگا کہ واشنگٹن اب ایران کے جوہری پروگرام کو تباہ کرنے کے عزم سے پیچھے ہٹ گیا ہے اور ایران کو صرف پابندیوں کے بوجھ تلے دبا کر رکھنا چاہتا ہے

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں