سعودی عرب نے خاموشی سے امریکی ہتھیاروں کی تفصیلات چین کو فراہم کر دیں، بدلے میں چین کیا دےگا؟ بین الاقوامی اخبارات کے دعوئوں نے ہلچل مچا دی

لاہور(پی این آئی) سعودی عرب چین سے مل کر امریکہ کے ساتھ ہاتھ کر گیا۔ نیویارک ٹائمز نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کا کہنا ہے کہ سعودی عرب چین کے ساتھ مل کر نیوکلیئر بم کی طرف جارہا ہے۔وہ پرامن کی بات تو کر ہی نہیں رہے۔ایک اور غیر ملکی اخبار نے کہا کہ کیا چائنا سعودی

عرب کو نیوکلیئر بم بنانے میں مدد دے رہا ہے؟ اس کے علاوہ اسرائیل کے ایک اخبار نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ پچھلے کئی عرصے سے سعودی عرب خاموشی کے ساتھ چین کو اہم معلومات فراہم کر رہا تھا۔امریکہ جتنا بھی اسلحہ سعودی عرب کو بیچتا تھا اس کی معلومات چین کو دی جا رہی تھیں۔سعودی عرب کو دیے جانے والے اسلحے کی تمام تفصیلات چین کو دی گئی۔اس کے بعد چائنا نے ان میزائل کے اوپر نیوکلیئر ویپن رکھے۔تو بقول امریکہ کے سعودی عرب ان کے ساتھ ہاتھ کر گیا ہے۔جب کہ امریکہ کو جو پاکستان کے نیوکلئیر اثاثے اپنے لیے خطرہ نظر آ رہے ہیں، اُس کی وجہ سیدھی سی ہے۔سعودی عرب نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ آئندہ بیس سال کے اندر سولہ نیوکلئیر ری ایکٹر لگائیں گے۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے اعلان کیا ہے کہ اگر ایران نیوکلئیر بم بنائے گا تو سعودی عرب بھی بنائے گا۔ سعودی عرب نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ نیوکلئیر ری ایکٹرز پر چالیس ارب ڈالرز خرچ کیے جائیں گے۔ نیوکلئیر ری ایکٹرز نیوکلئیر فیول بناتے ہیں۔جس کے لیے بم بنتے ہیں۔ سعودی عرب تیل بناتا ہے انہیں انرجی کی کیا ضرورت ہے، کہا یہی جاتا ہے کہ یہ سب انرجی کی تنوع کے لیے کیا جارہا ہے۔ لیکن ایک بات واضح ہے کہ سعودی عرب اب نیوکلئیر پروگرام شروع کرنا چاہ رہا ہے۔ دنیا کو اس بات کا احساس ہے کہ سوائے پاکستان کے سعودی عرب کی کوئی مدد نہیں کر سکتا۔ پاکستان کو اس وقت پیسے کی سخت ضرورت ہے اور دونوں ممالک آپس میں برادر ممالک بھی ہیں۔ہم جی حضوری بھی کرتے ہیں۔ اسی لیے ایران ہمارے مخالف ہو گیا ہے ، اسی لیے آج کل سعودی عرب ہم میں بڑی دلچسپی کا اظہار کر رہا ہے اور اسی لیے اب امریکہ کو بھی خطرہ نظر آنا شروع ہو گیا ہے۔ کہ کہیں یہ نہ ہو کہ پاکستان خفیہ طور پر نیوکلئیر ری ایکٹرز بنانے میں سعودی عرب کی مدد کرنا شروع کر دے۔ اسی لیے امریکہ نے نشاندہی کی ہے۔ ایک طرف اسرائیل بھی ایران کے نیوکلئیر پروگرام کے حق میں نہیں ہے۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں