جینوا (پی این آئی) عالمی ادارہ صحت نے خبردار کیا ہے کہ کورونا وائرس فضا میں موجود رہ سکتا ہے32ممالک کے239سائنسدانوں نے عالمی ادارہ صحت کو لکھا تھا کہ ایسے شواہد سامنے آئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ کورونا وائرس فضاءمیں معلق رہ کر انسانوں کو متاثر کر سکتا ہے. قبل ازیں مارچ2020
میں عالمی ادارہ صحت نے بیان جاری کیا تھا کہ کورونا وائرس فضا میں زندہ نہیں رہ سکتا ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ فضا میں وائرس کی منتقلی کا کوئی ثبوت نہیں ہے کورونا وائرس براہ راست لوگوں سے منتقل ہوتا ہے اور یہ وائرس متاثرہ شخص کے علاوہ کچھ اشیا سے بھی منتقل ہو سکتا ہے.سائنسدانوں نے عالمی ادارہ صحت کو کورونا سے متعلق اپنی سفارشات تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا تھا جس کے بعد عالمی ادارہ صحت نے ان شواہد کو تسلیم کیا ہے سائنسی تحقیق کے مطابق کورونا وائرس کے جراثیم کئی گھنٹوں تک فضا میں زندہ رہتے ہیں اور یہ جراثیم اس ماحول میں موجود افراد کو متاثر کر سکتے ہیں. اس وائرس کے جراثیم کے فضا میں موجود ہونے اور لوگوں کو متاثر کرنے کا خطرہ رش والی بند جگہوں میں زیادہ ہوتا ہے جہاں ہوا کا گزر کم سے کم ہو یہی وجہ ہے کہ بند جگہوں جیسے ریستوران، چرچ اور گوشت کے پلانٹس میں وائرس کے پھیلاؤ کے زیادہ کیسز سامنے آئے ہیں وائرس کے فضا میں موجود ہونے کا مطلب یہ بھی ہے کہ اس کے جراثیم ایک سے دوسری جگہ منتقل ہو سکتے ہیں‘شواہد کے مطابق کورونا کے جراثیم ایک کمرے کی لمبائی کے برابر سفر طے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور ممکنہ طور پر تین گھنٹوں تک فضا میں موثر رہتے ہیں.واضح رہے کہ30جون کو ایک پریس کانفرنس میں عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ڈاکٹر ٹیڈروس ادہانوم نے کہا تھاکہ اب بھی زیادہ تر لوگوں کے کورونا وائرس سے متاثر ہونے کا خدشہ ہے کیونکہ یہ وائرس ابھی تک پھیل رہا ہے انہوں نے واضح کیا کہ کورونا کی وبا جلد ختم ہونے کے امکانات کم ہیں. انہوں نے کہا کہ سب خواہش مند ہیں کہ یہ وبا ختم ہو جائے اور زندگی پہلے کی طرح رواں دواں ہو جائے مگر سچائی اور تلخ حقیقت یہ ہے کہ یہ مہلک وبا ختم ہونے کے قریب بھی نہیں پہنچی ہے حالانکہ عالمی سطح پر کئی ممالک نے اس ضمن میں کوشش کی ہے عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر ٹیڈروس ادہانوماور نے اعتراف کیا کہ اس سلسلے میں کافی پیشرفت ہوئی ہے تاہم ان کا کہنا تھا کہ حقیقت یہی ہے کہ یہ وبا زیادہ پھیل رہی ہے.عالمی ادارہ صحت کے ایمرجنسی پروگرام کے سربراہ مائیک ریان کا کہنا تھا کہ مہلک وبا کو پھیلنے سے روکنے کے لیے محفوظ ویکسین کی تلاش میں بھی پیشرفت ہوئی ہے مگر تاحال اس ضمن میں کوئی گارنٹی نہیں دی جاسکتی ہے کہ کی جانے والی کوشش کب کامیاب ہو گی؟ مائیک ریان کا کہنا تھا کہ جب تک ویکسین تیار نہیں ہو جاتی اس وقت تک تمام ممالک کو چاہیے کہ وہ بیماری کو مزید پھیلنے سے روکنے کے لیے ٹیسٹنگ کریں، کورونا مثبت کیسز کے مریضوں کو سماجی تنہائی اختیار کرائیں اوران مریضوں کا جن سے بھی رابطہ رہا ہے انہیں ٹریک کریں.ادھرآج بدھ کے روز پنجاب حکومت نے ضلع لاہور کے مزید 7 علاقوں میں لاک ڈاؤن
کا فیصلہ کا اعلان کیا ہے ڈپٹی کمشنر لاہور دانش افضال کے مطابق ٹاؤن شب اے ٹو بلاک، ڈی ایچ اے ای ایم ای سوسائٹی، واپڈا ٹاؤن، جوہر ٹاؤن سی بلاک اور چونگی امر سدھو بھی شامل ہے. لاہور کے مزید 7 علاقوں میں ایک ہفتے کے لیے اسمارٹ لاک ڈاؤن رات 12 بجے شروع کر دیا جائے گااس سے قبل 18 جون کو لاہور کے 61 علاقوں میں کورونا کے بڑھتے کیسز کے باعث دو ہفتے کے لیے اسمارٹ لاک ڈاؤن لگایا گیا تھا جن علاقوں کو سیل کیا گیا تھا ان میں جوہر ٹاؤن کے بلاک اے، بی ون، ای، ایف 2، جی، ایچ، جے اور آر شامل تھے.خیال رہے کہ حکومتی فیصلے کے تحت مصطفیٰ ٹاؤن، کنال ویو، ای ایم ای، واپڈا ٹاؤن اور پی سی ایس آئی آر فیز2 اور سبزہ زار کے کئی بلاک سیل کیے گئے تھے. بحریہ ٹاوَن کا جیسمین، گلبہار، ایگزیکٹو بلاک، ڈی ایچ اے فیزون، تھری، فائیو اور فور، عسکری 9 اور 10 کو مکمل طور پر سیل کیا گیا تھا تاہم سیل کیئے جانے والے علاقوں میں حکومت کی جانب سے کسی قسم کی امدادی کاروائیاں دیکھنے میں آئیں اور نہ ہی ان علاقوں میں لوگوں کے ٹیسٹ کیئے گئے اس لیے شہریوں کا خیال ہے کہ حکومتی لاک ڈاؤن پر شہریوں کی جانب سے عدم تعاون ایک فطری عمل ہے کیونکہ حکومت کی جانب سے سبزہ زار‘ہربنس پورہ‘مصطفی ٹاؤن سمیت کئی آبادیوں میں تنخواہ دار اور چھوٹے کاروباری رہائش پذیر ہیں جو تقریبا دو ماہ کے ملک گیر لاک ڈاؤن کی وجہ سے دیوالیہ ہوچکے ہیں اور حالیہ سمارٹ لاک ڈاؤن کے دوران ان علاقوں میں حکومتی کی جانب سے کسی قسم کی امدادی کاروائی دیکھنے میں نہیں آئی اس لیے لوگ بدظن ہورہے ہیں .
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں