واشنگٹن(پی این آئی) امریکہ میں انٹیلی جنس حکام نے کانگریس کے اہم ارکان کو اس بارے میں بریفنگ دی ہے کہ انھیں افغانستان میں امریکی اور اتحادی فوجیوں پر حملے کے لیے عسکریت پسندوں کو روس کی مبینہ پیشکش کے بارے میں کیا معلوم ہے اور کیا نہیں معلوم۔دوسری جانب امریکی اخبار نے افغان حکام کے حوالے
سے انکشاف کیا ہے کہ روسی خفیہ ایجنسی نے افغان عسکریت پسندوں کو امریکی یا اتحادی فوجی کو قتل کرنے کے بدلے ایک لاکھ ڈالر تک کی پیشکش کی تھی۔اس معاملے میں ایک افغان اسمگلر مڈل مین کا کردار ادا کررہا تھا۔میڈیارپورٹس کے مطابق واشنگٹن ڈی سی میں سی آئی اے کی ڈائریکٹر جینا ہیسپیل اور نیشنل سیکورٹی ایجنسی کے ڈائریکٹر پال نیکاسون نے کانگریس کے آٹھ اہم ارکان سے ملاقات کی۔یہ پہلا موقع تھا کہ قانون سازوں کو انٹیلی جنس حکام سے براہ راست مبینہ روسی منصوبے کے بارے میں سننے کا موقع ملا۔اس سے پہلے ان الزامات کے بارے میں نیشنل انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر جان ریٹکلف، قومی سلامتی کے مشیر رابرٹ اوبرائن اور وائٹ ہاس کے چیف آف اسٹاف مارک میڈوز بریفنگ دیتے رہے تھے۔ ہر بار ان تینوں کا کہنا تھا کہ منصوبے روسی منصوبے کے متعلق اطلاعات مصدقہ نہیں جس کی وجہ سے صدر ٹرمپ کو اس بارے میں آگاہ نہیں کیا گیا۔اوبرائن نے یہ بھی کہا تھا کہ وائٹ ہاس اس بارے میں غور کررہا ہے کہ اگر معلومات مصدقہ ثابت ہوئی تو ممکنہ طور پر کیا ردعمل دیا جائے۔ان کے الفاظ تھے کہ ہم کئی مہینوں سے آپشنز پر کام کررہے ہیں۔ اگر الزامات کی تصدیق ہوئی تو میں ضمانت دیتا ہوں کہ صدر ٹرمپ سخت کارروائی کریں گے۔بعض حالیہ اور سابق طالبان نے مبینہ روسی منصوبے کو حقیقی قرار دیا ہے۔ غزنی کے طالبان کمانڈر مولانی بغدادی نے بتایا کہ انفرادی طور پر کمانڈرز روسی انٹیلی جنس سے رقوم اور ہتھیار لیتے رہے ہیں۔یہ جرائم پیشہ گروہ ہیں جن کی وجہ سے ہماری ساکھ خراب ہوتی ہے۔امریکی انٹیلی جنس حکام سمجھتے ہیں کہ مبینہ منصوبہ روس کی خفیہ ایجنسی جی آر یو کے یونٹ 29155 کا تھا جو بیرون ملک قتل اور دوسرے کام کرنے کا ذمے دار ہے۔کانگریس کو اس ہفتے فراہم کی گئی دستاویزات میں لاکھوں ڈالر کی ادائیگیوں کا ذکر ہے اور ان میں سے کئی عزیزی کو کی گئیں۔ افغان حکام کا کہنا تھاکہ امریکی اور اتحادی اہداف کو نشانہ بنانے پر ہر فوجی کی ہلاکت پر ایک لاکھ ڈالر تک کی پیش کی گئی۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں